کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 262
پھرمیں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتائی تو انھوں نے کہا : ’’ اللہ تعالیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مغفرت کرے ، اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رجب کے مہینے میں عمرہ نہیں کیا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی عمرہ کیلئے گئے ہر مرتبہ ابن عمر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ ( پھر بھی وہ یہ بات بھول گئے ہیں ! ) جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کی یہ بات سن رہے تھے ۔ چنانچہ وہ خاموش ہو گئے ۔[1] اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے تھے اور وہ سب ذو القعدہ کے مہینہ میں تھے سوائے اس عمرہ کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا تھا ۔ پہلا عمرہ حدیبیہ سے ماہ ِذو القعدہ میں ، دوسرا عمرہ اگلے سال ،وہ بھی ذو القعدہ میں ، تیسرا ’ جعرانہ ‘ سے جہاں آپ نے حنین کی غنیمت کو تقسیم کیا تھا اور وہ بھی ذو القعدہ کے مہینہ میں ہی تھا ۔ جبکہ چوتھا عمرہ حج کے ساتھ تھا۔[2] اِس سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینہ میں قطعا عمرہ نہیں کیا تھا۔ لہٰذا یہ اعتقاد رکھنا غلط ہے کہ اس میں عمرہ کرنا افضل ہے ۔ رجب کے کونڈے ایک اور بدعت جس پر رجب کے مہینہ میں عمل کیا جاتا ہے وہ ہے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام پر ’ رجب کے کونڈے ‘ کرنا ۔کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے ایک شخص نے ’’ داستان عجیب ‘‘کے نام سے ایک کہانی شائع کی جس میں حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا کہ انھوں نے کہا : جو شخص ۲۲ رجب کو میرے نام کی نیاز کے طور پر ’کونڈے ‘ کرے اور میرے ذریعے اپنی حاجت مانگے تو ضرور پوری ہو گی اور اگر پوری نہ ہوئی تو قیامت کے روز میرا دامن ہو گا اور اس کا ہاتھ ۔ غور کیجئے ‘ وہ رسم جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چودہ سو سال بعد ایجاد کیا گیا وہ کیسے دین کا حصہ ہو سکتی ہے؟ اور کیا امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی اِس وصیت کا انکشاف چودہ سو سال بعد ہی ہونا تھا، پہلے کیوں نہ ہوا ؟ اور کیا یہ ہو سکتا ہے کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت نے اپنے نام کی نذر کے طور پر کونڈے کرنے کی وصیت کی ہو جبکہ
[1] صحیح مسلم:1255،السنن الکبری للنسائی:4222،سنن ابن ماجہ:2998 وصححہ الألبانی [2] صحیح البخاری:1778،1780،صحیح مسلم:1253