کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 258
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع ِ حدیث سے سختی سے منع فرمایا ہے اور اس پر جہنم کی وعید سنائی ہے۔
ارشاد ہے : (( لا تَکْذِبُوا عَلَیَّ ، فَإِنَّہُ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَلِجِ النَّارَ[1]))
’’ تم مجھ پر جھوٹ نہ گھڑنا ، کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ گھڑے گا وہ یقینا جہنم میں جائے گا۔ ‘‘
نیز فرمایا :(( مَنْ یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ ، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ)) [2]
’’ جو آدمی میری طرف وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو اس کا ٹھکانا یقینا جہنم ہے۔ ‘‘
موضوع حدیث کو روایت کرنا بھی حرام ہے
حدیث ِ موضوع کویہ تنبیہ کئے بغیر کہ یہ حدیث موضوع ہے ‘روایت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اسے وضع کرنا ہے۔ اور ایسا کرنے والے دونوں اشخاص ( وضاع اور راویٔ حدیث ِ موضوع ) اُس وعید کی زد میں آتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا وضعِ حدیث کرنے والے شخص کو سنائی ہے۔ اور اس سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل واضح ہے :
(( مَنْ حَدَّثَ عَنِّی بِحَدِیْثٍ یَرَی أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ ))
’’ جو شخص مجھ سے وہ حدیث روایت کرے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ جھوٹی ہے ، تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ ‘‘[3]
یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام رحمہ اللہ نے روایت ِ حدیث ِ موضوع کو بالاجماع حرام قرار دیا ہے ۔ خواہ وہ حدیث احکام ومسائل میں ہو یا ترغیب وترہیب میں ہو۔ چنانچہ الخطیب البغدادی کہتے ہیں:(یَجِبُ عَلَی الْمُحَدِّثِ أَنْ لَّا یَرْوِیَ شَیْئًا مِنَ الْأخْبَارِ الْمَصْنُوعَۃِ وَالْأحَادِیْثِ الْبَاطِلَۃِ الْمَوضُوعَۃِ،فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ بَائَ بِالْإِثْمِ الْمُبِیْنِ،وَدَخَلَ فِی جُمْلَۃِ الْکَذَّابِیْن) [4]
یعنی ’’ محدث پر واجب ہے کہ وہ من گھڑت ، باطل اور موضوع احادیث میں سے کوئی حدیث روایت نہ کرے ۔ اور جو شخص ایسا کرے وہ واضح گناہ کا مرتکب ہے اور کذابین کے گروہ میں داخل ہے ۔‘‘
امام نووی کہتے ہیں:(یَحْرُمُ رِوَایَۃُ الْحَدِیْثِ الْمَوضُوعِ عَلٰی مَنْ عَرَفَ کَونَہُ مَوضُوعًا أَوْ
[1] صحیح البخاری،کتاب العلم ، باب إثم من کذب علی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم :106
[2] صحیح البخاری:109
[3] صحیح مسلم،مقدمہ باب وجوب الروایۃ عن الثقات وترک الکذابین،ص43
[4] فتح المغیث السخاوی:275/1