کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 254
یعنی تمام حفاظِ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نماز من گھڑت ہے ۔ اوراس کے من گھڑت ہونے میں فن حدیث میں ادنیٰ سا علم رکھنے والے شخص کو بھی شک وشبہ نہیں ۔ فیروز آبادی اور اسی طرح مقدسی نے بھی صراحتاً کہا ہے کہ یہ حدیث باتفاقِ محدثین موضوع ہے ۔ مولانا عبد الحی لکھنوی کہتے ہیں:(إِنَّ حَدِیْثَ صَلَاۃِ الرَّغَائِبِ مَوضُوعٌ بِاتِّفَاقِ أَکْثَرِ الْمُحَدِّثِیْنَ أَو کُلِّہِمْ،وَ لَاعِبْرَۃَ بِمَنْ خَالَفَہُمْ کَائِنًا مَنْ کَانَ ) یعنی ’’ صلاۃ الرغائب ‘‘ والی حدیث من گھڑت ہے اور اس پر اکثر محدثین یا سب محدثین کا اتفاق ہے ۔ اور ان کی مخالفت کرنے والے کا کوئی اعتبار نہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ [1] اس کے علاوہ سیوطی ، ابن عراق اور الکرمی المقدسی نے بھی اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔[2] 2۔ رجب کے مخصوص روزے ماہِ رجب کی بدعات میں سے ایک بدعت ہے اس میں روزے کی مخصوص فضیلت کا اعتقاد رکھتے ہوئے مخصوص روزے رکھنا ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس مہینہ کے روزوں کے بارے میں کچھ بھی صحیح ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ سکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر اِس مہینے میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے ۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے امام الساجی الحافظ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ امام عبد اللہ الأنصاری رجب میں روزہ نہیں رکھتے تھے اور اس سے منع بھی کرتے تھے ۔ نیز وہ کہتے تھے : ( مَا صَحَّ فِی فَضْلِ رَجَب وَفِی صِیَامِہٖ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم شَیْئٌ ) [3] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجب کی فضیلت یا اس میں روزوں کی فضیلت کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ ‘‘ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : (لَمْ یَرِدْ فِی فَضْلِ شَہْرِ رَجَبٍ وَ لاَ فِی صِیَامِہٖ وَلاَ فِی صِیَامِ شَیْئٍ مِنْہُ مُعَیَّنٍ وَلاَ فِی قِیَامِ لَیْلَۃٍ مَخْصُوصَۃٍ فِیْہِ حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ یَصْلُحُ لِلْحُجَّۃِ،وَقَدْ سَبَقَنِی إِلَی الْجَزْمِ بِذَلِکَ الْإِمَامُ أبُو إِسْمَاعِیلَ الْہِرَوِیُّ) [4]
[1] الآثار المرفوعۃ،ص74 [2] اللآلیء المصنوعۃ :47/2،تنزیہ الشریعہ،ص2/90،الفوائدالموضوعۃ،ص72 [3] الموضوعات،579-578/2 [4] تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب،ص71