کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 253
اسی طرح ابن الجوزی ’الصلاۃ الألفیۃ‘ کے بارے میں موضوع حدیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’ اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اِس کے زیادہ تر راوی مجہول ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو بالکل ضعیف ہیں اور اِس طرح کی حدیث کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونا نا ممکن ہے ۔ اور ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو یہ نماز پڑھتے ہیں ،جب چھوٹی راتیں ہوتی ہیں تو وہ اِس کے بعد سو جاتے ہیں اور ان کی فجر کی نماز بھی فوت ہو جاتی ہے ۔ جبکہ جاہل ا ائمۂ مساجد نے اِس نماز کو اور اسی طرح ’’صلاۃ الرغائب‘‘ کو لوگوں کو جمع کرنے اور کسی بڑے منصب تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور قصہ گو لوگ اپنی مجالس میں اسی نماز کا تذکرہ کرتے ہیں حالانکہ یہ سب حق سے بہت دور ہیں ۔ ‘‘[1]
2۔ابن رجب کہتے ہیں : ’’ ماہِ رجب کے پہلے جمعہ کی رات میں صلاۃ الرغائب پڑھنے کے متعلق جو احادیث مروی ہیں وہ سب کی سب جھوٹی ، باطل اور غیر صحیح ہیں ۔اور یہ نماز جمہور علماء کے نزدیک بدعت ہے جو چوتھی صدی کے بعد ظاہر ہوئی ۔‘‘[2]
3۔امام نووی کہتے ہیں: ’’ وہ نماز جو صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف ہے اور جس کی بارہ رکعات رجب کی پہلی رات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہیں ، و ہ اور اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات کی سو رکعات نماز یہ دونوں نمازیں بہت بری بدعت ہیں ۔ لہٰذا ’قوت القلوب‘ اور ’ احیاء علوم الدین ‘ میں ان کے تذکرہ سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے ۔ اور نہ ہی ان کے بارے میں روایت کی گئی حدیث سے دھوکہ کھانا چاہئے کیونکہ وہ پوری کی پوری باطل ہے ۔‘‘ [3]
4۔ محمد بن طاہر الہندی کہتے ہیں:( صَلَاۃُ الرَّغَائِبِ مَوضُوعٌ بِالْاِتِّفَاقِ ) ’’ صلاۃ الرغائب بالاتفاق من گھڑت ہے ۔ ‘‘[4]
5۔ امام شوکانی کہتے ہیں:(قَدِ اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی أَنَّہَا مَوضُوعَۃٌ ۔۔۔وَوَضْعُہَا لَا یَمْتَرِیْ فِیہِ مَنْ لَہُ أَدْنٰی إِلْمَامٌ بِفَنِّ الْحَدِیثِ،وَقَالَ الفَیْرُوزآبَادِی فِی الْمُخْتَصَرِ:إِنَّہَا مَوضُوعَۃٌ بِالْاِتِّفَاقِ،وَکَذَا قَالَ الْمَقْدِسِیُّ) [5]
[1] الموضوعات:440-443/2
[2] لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف،ص123
[3] المجموع للنووی :379/3
[4] تذکرۃ الموضوعات،ص44
[5] الفوائد المجموعۃ ص51-5