کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 250
’’ کیا وہ لوگ وہاں کوئی جشن یا عرس مناتے تھے ؟ ‘‘ انھوں نے کہا : نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہُ لَاوَفَائَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ،وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ[1])) ’’ تم اپنی نذر پوری کر لو کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں نذر پوری نہیں کی جاتی اور نہ ہی ایسی نذر جس کو پورا کرنے کا انسان اختیار نہ رکھتاہو ۔ ‘‘ اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ جہاں کوئی عرس وغیرہ منایا جاتا ہو یا غیر اللہ کی پوجا کی جاتی ہو وہاں اللہ کے نام پر بھی کوئی جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی وہاں جا کر کوئی نذر پوری کی جا سکتی ہے ۔کیونکہ جس صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ وہ ’بوانہ ‘ مقام پر جا کر اپنی نذر پوری کر نے کیلئے اونٹ ذبح کرسکتا ہے یا نہیں ، یقینا وہ اللہ کے نام پر ہی اسے ذبح کرنے والا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک اس سے یہ پوچھ نہیں لیا کہ وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں کی جاتی تھی اور وہاں کوئی عرس / میلہ تو نہیں لگتا تھا ‘ اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں جاکر نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ یعنی اگر وہاں غیر اللہ کی پوجا کی جاتی ہوتی یا وہاں کوئی عرس وغیرہ منایا جاتا ہوتا تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اجازت نہ دیتے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے مقام پر اللہ کے نام سے بھی کوئی جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس سے قطعی طور پر پرہیز کرنا چاہئے ۔ برادران اسلام ! میں ظلم سے مراد یہ بھی ہے کہ تم ان چار مہینوں میں خصوصی طور پر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو ، کیونکہ ان میں نافرمانی کرنے کا گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ظلم کو سال کے بارہ مہینوں میں حرام قرار دیا ہے ، پھر ان میں سے چار مہینوں کو خاص کردیا ہے کیونکہ ان میں برائی اور نافرمانی کا گناہ زیادہ ہوجاتا ہے اور نیکی اور عمل صالح کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے ۔ اور امام قتادۃرحمہ اﷲ { فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ } کے بارے میں کہتے ہیں : ’’ حرمت والے مہینوں میں ظلم کا گناہ اور بوجھ دوسرے مہینوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔اور ظلم کا گناہ
[1] سنن أبيداؤد:3313 وصححہ الألبانی