کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 244
9۔ ادائیگیٔ حقوق
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے حقوق انھیں ادا کرتے تھے ۔ اگر کسی سے کوئی چیز بطور قرض لیتے تو ادائیگی کے وقت اُس سے بہتر چیز ادا کرتے اور قرض خواہ کے حق میں دعا بھی فرماتے ۔اور بعض اوقات کسی سے کوئی چیز خرید کر اس کی قیمت بھی ادا کردیتے اور وہ چیز بھی اسے واپس کردیتے ۔
٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا (جو ایک اونٹ تھا ) تقاضا کرنے آیا تو اس نے آپ سے سخت کلامی کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا :(( دَعُوْہُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ))
’’ اسے چھوڑ دو کیونکہ حق والا ( سختی سے ) بات کرسکتا ہے ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( أَعْطُوْہُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّہٖ))
’’ اسے اِس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو ۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمیں اس سے بہتر اونٹ ہی ملا ہے ، اُس جیسا نہیں ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَعْطُوْہُ فَإِنَّ مِنْ خَیْرِکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَائً ا )) [1]
’’ اسے وہی دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں بہتر ہو ۔‘‘
٭ حضرت عبد اللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے قرض لیا جو چالیس ہزار تھا ۔ پھر آپ کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے قرض ادا کردیا اور فرمایا :
(( بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْ أَہْلِکَ وَمَالِکَ،إِنَّمَا جَزَائُ السَّلَفِ الْحَمْدُ وَالْأدَائُ [2]))
’’ اللہ تعالیٰ تمھارے گھر والوں میں اور تمھارے مال میں برکت دے ۔ بے شک قرضے کا بدلہ یہ ہے کہ قرض دار قرض دینے والے کا شکر ادا کرے اور قرض واپس کردے ۔ ‘‘
٭ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ واپس لوٹتے ہوئے میں ایک اونٹ پر سوار تھا جو انتہائی تھک چکا تھا ، چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ اسے چھوڑ دوں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پیچھے سے آئے ، میرے لئے دعا فرمائی اور اسے مارا ۔ پھر وہ ایسا چلا کہ اُس جیسا کبھی نہ چلا تھا۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اب تمھارا اونٹ کیسا ہے ؟ میں نے کہا : اب بخیر ہے اور آپ کی برکت کا اُس پر اثر ہوا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] صحیح البخاری:2306،صحیح مسلم:1601
[2] سنن النسائی:4683 حسنہ الألبانی