کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 243
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بچوں پر شفقت کرنے والا کوئی نہیں دیکھا ۔‘‘
نیز ان کا کہناہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم مدینہ منورہ کے ایک محلہ (عوالی ) میں کسی عورت کے ہاں دودھ پیتے تھے ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ملنے کیلئے جایا کرتے تھے ۔ ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے ۔ دودھ پلانے والی عورت کا خاوند لوہار تھا ، اس لئے اس کے گھر میں دھواں رہتا تھا ۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں جاتے ، بچے کو اٹھاتے ، اسے بوسہ دیتے اور پھر واپس لوٹ آتے ۔
اور جب وہ فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ ابْنِی،وَإِنَّہُ مَاتَ فِی الثَّدْیِ،وَإِنَّ لَہُ لَظِئْرَیْنِ تُکَمِّلَانِ رَضَاعَہُ فِی الْجَنَّۃِ )) [1]
’’ بے شک ابراہیم میرا بیٹا تھا اور وہ مدتِ رضاعت میں فوت ہو گیا ہے ۔ اب اس کیلئے جنت میں دو دودھ پلانے والیاں ہیں جو اس کی رضاعت مکمل کریں گی ۔‘‘
جبکہ صحیحین کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کی وفات کے موقعہ پر یوں فرمایا :
(( تَدْمَعُ الْعَیْنُ وَیَحْزَنُ الْقَلْبُ،وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا یَرْضَی رَبُّنَا،وَاللّٰہِ یَا إِبْرَاہِیْمُ إِنَّا بِکَ لَمَحْزُوْنُوْنَ )) [2]
’’ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور دل غمزدہ ہے ۔ پھر بھی ہم صرف وہی بات کہہ سکتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے ۔ اللہ کی قسم ! اے ابراہیم ہم تمھاری جدائی پر غمگین ہیں ۔‘‘
٭حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ نے اپنے کندھے پر ( اپنی نواسی ) امامہ بنت ابی العاص کو اٹھا رکھا تھا ۔ پھر آپ نے اسی حال میں نماز شروع کردی ، پس جب آپ رکوع میں جاتے تو اسے اتار کر بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ۔[3]
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا ۔اُس وقت آپ کے پاس حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا : میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے تو ان میں سے کسی کو کبھی بوسہ نہیں دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :
(( مَنْ لَّا یَرْحَمْ لَا یُرْحَمُ )) [4] ’ ’جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا ۔‘‘
[1] صحیح مسلم:2316
[2] صحیح البخاری:1303، صحیح مسلم : 2315
[3] صحیح البخاری :5996، صحیح مسلم :543
[4] صحیح البخاری 5997، صحیح مسلم :2318