کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 241
تو آپ تشریف لے آئے ، باغ کے درمیان بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا :
اب تم قرض خواہوں میں سے ہر ایک کو اس کے قرض کے بقدر کھجور کا پھل دینا شروع کرو۔
میں نے انھیں پھل دینا شروع کیا یہاں تک کہ سب کا قرض ادا ہو گیا اور کھجوروں کا پھل اتنا باقی رہ گیا کہ جیسے اس میں سے کچھ لیا ہی نہیں گیا ( یا جیسے اس کو ہاتھ ہی نہیں لگایا گیا ۔) [1]
بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد اُحد کے دن شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ قرض خواہوں نے شدت سے مطالبہ کیا کہ انھیں ان کا حق دیا جائے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور گذارش کی کہ آپ قرض خواہوں سے کہیں کہ وہ میرے باغ کا پھل جتنا ہو اسے قبول کر لیں اور باقی قرض میرے والد کو معاف کردیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات کی تو انھوں نے انکار کردیا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’ تم صبح کو اپنے باغ میں میرا انتظار کرنا ‘‘
اگلے دن صبح ہی کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے باغ میں تشریف لے گئے ، باغ میں ایک چکر لگایا اور اس کے پھل میں برکت کی دعا کی ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد انھو ں نے پھل اتارا اور اسے قرض خواہوں میں ان کے قرض کے بقدر تقسیم کیا ، اس کے بعد بھی بہت سارا پھل بچ گیا ۔[2]
6۔ گھرو الوں کے ساتھ حسن سلوک
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر بھی عام لوگوں سے اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرتے اور اسی طرح گھر کے اندر بھی اپنے گھر والوں سے بہت اچھا سلوک کرتے ۔ ان سے اظہارِ محبت کرتے ، ان کے حقوق کا بھرپور خیال رکھتے اور حتی کہ گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے ؟
تو انھوں نے فرمایا :
(( کَانَ فِی مِہْنَۃِ أَہْلِہٖ،فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ [3]))
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کی خدمت کرتے تھے ۔ پھر جب نماز کا وقت ہوجاتا توآپ اس کیلئے کھڑے
[1] صحیح البخاری:2127 ،2405
[2] صحیح البخاری:2395
[3] صحیح البخاری:6039