کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 238
میں نے آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد آپ سے بہتر تعلیم دینے والا کبھی نہیں دیکھا ، اللہ کی قسم ! آپ نے نہ مجھے ڈانٹا ، نہ مجھے مارا ا ور نہ مجھے برا بھلا کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ ہَذِہِ الصَّلَاۃَ لاَ یَصْلُحُ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ،إِنَّمَا ہُوَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ )) [1] ’’ بے شک یہ نماز ایسی عبادت ہے کہ اس میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے ۔ اس میں تو بس تسبیح وتکبیر اور قراء ت ِ قرآن ہی ہے ۔‘‘ 4۔ عفو ودرگذر اور برد باری پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہایت برد بار اورمتحمل مزاج تھے اور کسی شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچتی تو آپ اسے برداشت کرتے اور اذیت پہنچانے والے کو معاف کردیتے ۔ اِس کے بھی متعدد نمونے موجود ہیں ۔ ٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا ۔ آپ نے ایک نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی جس کے کنارے موٹے تھے۔ اچانک ایک دیہاتی بدو آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو پکڑ کراس قدر شدت سے کھینچا کہ میں نے آپ کی گردن پر اس کے نشانات دیکھے ۔ پھر اس نے کہا: (یَا مُحَمَّدُ،مُرْ لِی مِنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ) [2] ’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس مال میں سے دینے کا حکم دو جو اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات فرمایا ، پھر ہنس دئیے اور اسے مال دینے کا حکم جاری کیا ۔ ٭ اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آٹھ سال کی عمر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شروع کی اور دس سال کرتا رہا ، اِس دوران آپ نے مجھے میرے ہاتھوںکسی چیز کے تلف ہونے پر کبھی ملامت نہیں کی ۔ اور اگر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی مجھے ملامت کرتا تو آپ فرماتے : (( دَعُوْہُ،فَإِنَّہُ لَوْ قُضِیَ شَیْئٌ کَانَ [3])) ’’اسے چھوڑ دو کیونکہ جس چیز کا فیصلہ ہو چکا وہ ہر حال میں ہونی ہے۔‘‘
[1] صحیح مسلم:537 [2] صحیح البخاری:3149، صحیح مسلم:1057 [3] رواہ عبد الرزاق فی مصنفہ وابو نعیم فی الحلیۃ،وصححہ الألبانی فی الاحتجاج بالقدر لابن تیمیۃ