کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 237
کر بھیجا گیا ہے نہ کہ تنگی پیدا کرنے والے بنا کر۔‘‘ ٭نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( إِنِّیْ لَأقُوْمُ فِی الصَّلَاۃِ وَأنَا أُرِیْدُ أُطِیْلُہَا ، فَأَسْمَعُ بُکَائَ الصَّبِیِّ فَأَتَجَوَّزُ فِی صَلَاتِی مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ وَجْدِ أُمِّہٖ عَلَیْہِ مِنْ بُکَا ئِہٖ)) [1] ’’ میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں اور میری نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اسے لمبا کرونگا لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کردیتا ہوں ، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے رونے کیوجہ سے اس کی ماں اس پر ترس کھاتی ہے ۔‘‘ ٭ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں صبح کی نماز کیلئے تاخیر سے جاتا ہوں کیونکہ ’ فلاں ‘ امام ہمیں بڑی لمبی نماز پڑھاتا ہے ۔ تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ ونصیحت میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا ۔ آپ نے فرمایا : (( أَیُّہَا النَّاسُ،إِنَّ فِیْکُمْ مُنَفِّرِیْنَ،فَأَیُّکُمْ مَا صَلّٰی بِالنَّاسِ فَلْیَتَجَوَّزْ فَإِنَّ فِیْہِمُ الْکَبِیْرَ وَالْمَرِیْضَ وَذَا الْحَاجَۃِ [2])) ’’ لوگو ! بے شک تم میں کچھ ایسے ہیں جو نفرت دلاتے ہیں ، لہٰذا تم میں سے جو شخص نماز پڑھائے وہ اختصار کرے ( ہلکی پھلکی نماز پڑھائے ) کیونکہ نمازیوں میں عمر رسیدہ بھی ہوتے ہیں ، مریض بھی ہوتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنے کام کاج کیلئے جلدی جانا ہوتا ہے ۔‘‘ ٭ معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص کو چھینک آئی۔ تو میں نے کہا : ( یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ) اِس پر لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ میں نے کہا : میری ماں مجھے گم پائے ! تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ مجھے اِس طرح دیکھتے ہو ! چنانچہ انھوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کردئیے ۔ میں نے جب دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں : (( مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہُ وَلاَ بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ،فَوَ اللّٰہِ مَا کَہَرَنِی وَلَا ضَرَبَنِی وَلَا شَتَمَنِی))
[1] صحیح البخاری:709،صحیح مسلم:470 [2] صحیح البخاری:702 ،6110، صحیح مسلم :466