کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 234
اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے ایک کام ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( یَا أُمَّ فُلاَن،أُنْظُرِیْ أَیَّ السِّکَکِ شِئْتِ حَتّٰی أَقْضِیَ لَکِ حَاجَتَکِ)) [1] ’’ اے ام فلان ! دیکھو تم جس گلی میں چاہو مجھے لے چلو تاکہ میں تمھاری ضرورت کو پورا کر سکوں ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ گئے یہاں تک کہ اس کا کام ہو گیا ۔ سنن ابی داؤد میں یہ الفاظ ہیں : (( یَا أُمَّ فُلاَن،اِجْلِسِیْ فِی أَیِّ نَوَاحِی السِّکَکِ حَیْثُ شِئْتِ حَتّٰی أَجْلِسَ إِلَیْکِ)) [2] ’’ اے ام فلان ! تم گلی کے جس کونے میں بیٹھنا چاہو بیٹھ جاؤ تاکہ میں تمھارے پاس بیٹھ کر تمھاری بات سن سکوں ۔‘‘ پھر وہ بیٹھ گئی ۔ آپ بھی اس کے ساتھ تشریف فرما ہوئے یہاں تک کہ اس نے اپنی ضرورت کے متعلق آپ کو آگاہ کر دیا ۔ غور کیجئے ! اس خاتون کا دماغی توازن درست نہ تھا اور ظاہر ہے کہ معاشرے میں اس کی کوئی حیثیت نہ تھی ، لیکن اسے جب ضرورت پڑی تو وہ سیدھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، کسی دربان یا سیکرٹری وغیرہ کی منت سماجت کرکے ملاقات کیلئے ٹائم لئے بغیر آپ کے پاس جا پہنچی ۔ پھرآپ نے اس کا پورا احترام کیا اور اسے ’ ام فلان ‘کہہ کر خلوت میں گفتگو کرنے کا پوار موقعہ دیا تاکہ وہ بلا خوف و جھجک اپنی ضرورت کے متعلق آپ کو آگاہ کر سکے ۔ یہ ہے تواضع اور عاجزی وانکساری امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ جبکہ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جب کسی معمولی عہدے پر فائز ہو تووہ اپنے اور ضرورتمندوں کے درمیان سیکرٹری وغیرہ کو بٹھا دیتا ہے جو انھیں اس سے ملاقات کا موقعہ ہی نہیں دیتا ، یا انھیں گھنٹوں اور بعض اوقات دنوں تک خوار کرنے کے بعدملنے کا موقعہ دیتا ہے ، اور بسا اوقات رشوت دئیے بغیر ’ صاحب ‘ سے ملنے کی امید ہی نہیں ہوتی۔ ضرورتمندوں کی تو بات چھوڑئیے اس کے ما تحت ملازمین بھی اس کے سامنے بات کرنے سے خوف کھاتے ہیں ! ٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے برتن لے کر آجاتے جن میں پانی بھرا ہوتا ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر برتن میں( برکت کیلئے ) اپنا ہاتھ ڈبوتے ۔ اور بعض اوقات سردیوں کے موسم میں پانی ٹھنڈا ہوتا ، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتنوں میں اپنا ہاتھ ضرور ڈبوتے ۔ [3] ٭ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
[1] صحیح مسلم:2326 [2] سنن أبي داؤد : 4818 [3] صحیح مسلم:2324