کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 229
’’ تم سلام کو پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ ، رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرو اور رات کو اس وقت نماز پڑھا کرو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ اِس طرح تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤگے ۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت انس رضی اللہ عنہ جوعرصہ دس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے وہ بیان کرتے ہیں کہ (( لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم سَبَّابًا،وَلَا فَحَّاشًا،وَلَا لَعَّانًا،کَانَ یَقُوْلُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ الْمَعْتَبَۃِ : مَا لَہُ تَرِبَ جَبِیْنُہُ [1])) ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ برا بھلاکہتے تھے ، نہ بے ہودہ گفتگو کرتے تھے اور نہ لعنت بھیجتے تھے ۔ اور آپ ہم میں سے کسی کو ڈانٹنا چاہتے تو زیادہ سے زیادہ یہی فرماتے : اسے کیا ہو گیا ہے اس کی پیشانی خاک آلود ہو ۔‘‘ اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق کے حامل تھے ، آپ نے ایک دن مجھے کسی کام کیلئے بھیجا تو میں نے زبان سے کہا کہ میں نہیں جاؤں گا لیکن میرے دل میں یہ تھا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جاؤنگا ۔ چنانچہ میں روانہ ہو گیا۔ میں کچھ بچوں کے پاس سے گذرا جو بازار میں کھیل رہے تھے ( تومیں بھی ان کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔ ) اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورمیرے پیچھے سے میری گردن کو پکڑ لیا۔ میں نے آپ کی طرف دیکھاتوآپ ہنس رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : (( یَا أُنَیْسُ،أَذَہَبْتَ حَیْثُ أَمَرْتُکَ؟)) ’’ اے پیارے انس ! تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے تمھیں جانے کا حکم دیا تھا ؟ ‘‘ میں نے کہا : جی اللہ کے رسول ! میں ابھی جا رہا ہوں۔[2] حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی گواہی حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (( لَمْ یَکُنْ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا،وَإِنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ: إِنَّ خِیَارَکُمْ أَحَاسِنُکُمْ أَخْلاَقًا )) [3] ’’ بے ہودہ گفتگو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ عادت تھی اور نہ ہی آپ اس کی کوشش کرتے تھے ۔ اور آپ فرمایا
[1] صحیح البخاری:6031 [2] صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أحسن الناس خلقا [3] صحیح البخاری:6035،صحیح مسلم:2321