کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 228
ہرقل نے تمام سوالات کے جوابات سننے کے بعد ان کی تو جیہات بھی بیان کیں ، چنانچہ اس نے کہا کہ تم نے یہ جو کہا کہ وہ نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے جھوٹ نہیں بولتے تھے تو مجھے یقین ہے کہ جب وہ لوگوں پر جھوٹ نہیں گھڑتے تھے تو وہ اللہ پر بھی جھوٹ نہیں گھڑ سکتے ۔ اور تم نے یہ جو کہا کہ وہ تمھیں اکیلئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے اور اس کا شریک بنانے سے منع کرتے ہیں ۔ نیز وہ تمھیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے ، پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں تو تم نے جو کچھ کہا ہے اگر یہ برحق ہے تو عنقریب وہ میرے اس تختِ بادشاہت کے بھی مالک بن جائیں گے ۔ اور مجھے یقین تھا کہ وہ تشریف لانے والے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہونگے ۔ پس اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں آپ تک پہنچ سکوں گا تو میں ضرور آپ سے ملنے کی کوشش کرتا ۔ اور اگر میں آپ کے پاس پہنچ جاتا تو میں آپ کے قدم دھوتا۔۔۔‘‘[1] اسی طرح سائب المخزومی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا تو لوگ میری تعریفیں کرنے اور میرا ذکر کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِہٖ)) ’’ میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں ‘‘ میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،آپ نے بالکل سچ فرمایا ۔ آپ ( جاہلیت میں ) میرے ساتھ ( کاروبار ) میں شریک تھے ۔ پس آپ بہت اچھے شریک تھے ، آپ میری مخالفت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی مجھ سے جھگڑا کرتے تھے ۔‘‘[2] امام خطابی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ سائب رضی اللہ عنہ معاملات میں آسانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کو بیان کررہے ہیں ۔[3] حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ارشاد فرما رہے تھے : (( أَفْشُوا السَّلَامَ ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ،وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلاَمٍ )) [4]
[1] صحیح البخاری:7، صحیح مسلم:1773 [2] سنن أبی داؤد :4836، سنن ابن ماجہ :2278،وصححہ الألبانی [3] معالم السنن [4] سنن الترمذی:2485،سنن ابن ماجہ :1334، وصححہ الألبانی