کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 220
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا تَمْنَعُوْا نِسَائَ کُمُ الْمَسَاجِدَ إِذَا اسْتَأْذَنَّکُمْ إِلَیْہَا)) ’’ اگر تمہاری خواتین تم سے مساجد میں جانے کی اجازت طلب کریں تو تم انھیںان میں جانے سے منع نہ کیا کرو ۔‘‘ یہ حدیث سن کر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے بلال بن عبد اللہ کہنے لگے:(وَاللّٰہِ لَنَمْنَعُہُنَّ)اللہ کی قسم ! ہم انھیں ضرور منع کریں گے ۔ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور انھیں شدید برا بھلا کہا ، اتنا برا بھلا کہ میں نے آج تک انھیں کسی کو اتنا برا بھلا کہتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ اور انھوں نے فرمایا :(أُخْبِرُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَتَقُوْلُ: وَاللّٰہِ لَنَمْنَعُہُنَّ) میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں او رتم کہتے ہو : اللہ کی قسم ! ہم انھیں ضرور منع کریں گے ! [1] ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی: (( اِئْ ذَنُوْا لِلنِّسَائِ بِاللَّیْلِ إِلَی الْمَسَاجِدِ)) ’’ عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں جانے کی اجازت دے دیا کرو ‘‘ تو ان کے ایک بیٹے نے ‘ جس کا نام واقد تھا کہا : تب تو وہ اسے خرابی کا ذریعہ بنا لیں گی ! حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر مارا اور فرمایا : (أُحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَتَقُوْلُ:لَا ) ’’ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہاہوں اور تم کہتے ہو : نہیں ۔‘‘ [ حوالہ مذکور ] اس حدیث کے فوائد میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:(فیہ تعزیر المعترض علی السنۃ والمعارض لہا برأیہ، وفیہ تعزیر الوالد ولدہ وإن کان کبیرا) ’’ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو آدمی سنت پر اعتراض کرے اور اپنی رائے سے اس کے برعکس کوئی بات کرے تو اسے سزا دی جا سکتی ہے ۔ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ والد اپنے بیٹے کو سزا دے سکتا ہے چاہے وہ بڑا کیوں نہ ہو ۔ ‘‘[2] اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی بناء پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ باوجودیکہ انتہائی سخت مزاج تھے اپنی بیویوں کو مسجد میں جانے سے منع نہیں کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی عشاء اور فجر کی نمازیں مسجد میں جا کر باجماعت پڑھتی تھیں ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ مسجد میں آکر کیوں نماز پڑھتی ہیں جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے نا پسند کرتے ہیں اور بڑے ہی باغیرت
[1] صحیح مسلم :442 [2] شرح النووی لمسلم