کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 219
( اِجْعَلْ ’’أَرَأَیْتَ ‘‘ بِالْیَمَنِ،رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَسْتَلِمُہُ وَیُقَبِّلُہُ ) [1] یعنی ’’ یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ ’’ آپ کا کیا خیال ہے ‘‘ اسے یمن میں چھوڑ آؤ ، میں تو صرف اتنا جانتا ہوںکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ نے اس کا استلام کیا اور اسے بوسہ دیا ۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا علم ہو جائے تو پھر کسی کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی چاہے وہ رائے کسی صحابی کی کیوں نہ ہو لیکن بصد افسوس ! اس دور میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کے بارے میں صحیح احادیث سنائی جاتی ہیں تو وہ ان کے مقابلے میں اپنے علماء یا ائمہ کرام کی آراء پیش کرتے ہیں ! حالانکہ یہ اتنی بڑی جسارت ہے کہ جس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عذابِ الٰہی کے نازل ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا۔ جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے عروۃ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ اللہ سے نہیں ڈرتے کہ آپ حجِ تمتع کی رخصت دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : اے عروۃ ! تم اپنی والدہ سے پوچھ لو ، عروۃ کہنے لگے : ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) نے تو تمتع نہیں کیا ! یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (وَاللّٰہِ مَا أُرَاکُمْ مُنْتَہِیْنَ حَتّٰی یُعَذِّبَکُمُ اللّٰہُ ، نُحَدِّثُکُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ،وَتُحَدِّثُوْنَا عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ ) ’’ اللہ کی قسم ! میں نہیں سمجھتا کہ تم باز آؤ گے یہاں تک کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو ، ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں اور تم اس کے مقابلے میں ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) کی بات کرتے ہو ‘‘ ؟ اور دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (أُرَاہُمْ سَیَہْلِکُوْنَ،أَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَیَقُوْلُوْنَ: قَالَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ؟)[2] ’’ میں سمجھتا ہوں کہ وہ عنقریب ہلاک ہو جائیں گے ، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں ) فرمایا اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما ) نے ( یوں ) کہا ؟‘‘ حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا شدید رد عمل (۱) سالم بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ
[1] صحیح البخاری:1611 [2] صحیح جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر، أبو الأشبال: ص525