کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 217
سے رجوع فرما لیتے اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ۔ جیسا کہ یحییٰ بن سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انگلیوں کی دیت کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ ، اس کے ساتھ والی انگلی اور اسی طرح درمیان والی انگلی کی دیت دس اونٹ اور اس کے ساتھ والی انگلی کی نو اونٹ اور سب سے چھوٹی انگلی کی چھ اونٹ ہے لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ آل عمر بن حزم کی کتاب میں یہ حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انگلیوں کی دیت دس دس اونٹ مقرر فرمائی ہے تو انھوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔[1] (۴) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا : ( أَمَا وَاللّٰہِ،إِنِّیْ لَأعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ،وَلَوْ لَا أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ) ’’ خبر دار ! مجھے یہ بات معلوم ہے کہ تم ایک پتھر ہو اور نہ تم نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ نفع ۔ اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا بوسہ لیا ہے تو میں کبھی تمہارا بوسہ نہ لیتا ۔ ‘‘ پھر فرمانے لگے :(مَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ،إِنَّمَا کُنَّا رَائَ یْنَا الْمُشْرِکِیْنَ،وَقَدْ أَہْلَکَہُمُ اللّٰہُ،ثُمَّ قَالَ : شَیْئٌ صَنَعَہُ رَسُوْلُ اللّٰہُ صلي اللّٰه عليه وسلم فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَتْرُکَہُ ) [2] یعنی ’’ اب ہم رمل کیوں کریں ! وہ تو در اصل ہم مشرکین کے سامنے ( اپنی طاقت ) کے اظہار کیلئے ہی کرتے تھے اور اب تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا ہے ! پھر کہنے لگے : جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ، ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ اسے چھوڑ دیں ۔ ‘‘ 6۔اختلافی مسائل میں فیصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت پر چھٹا حق یہ ہے کہ تمام اختلافی مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کی احادیث ِ مبارکہ کو فیصل تصور کرتے ہوئے ان کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جائے اور ان کے مقابلے میں کسی کی رائے یا کسی کے مسلک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے ۔ فرمان الٰہی ہے : { فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا
[1] الرسالۃ للإمام الشافعی:ص422 [2] صحیح البخاری:1605، صحیح مسلم:1270