کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 210
روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھتا ہو۔ اور دوسرا یہ کہ وہ بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو ۔اور یہ دونوں وصف ایسے ہیں جن سے آج بہت سارے مسلمان محروم ہیں۔اسی لئے ان کے دلوں میں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت بھی نہیں رہی ۔ اِس کے برعکس انھوں نے اور کئی لوگوں کو آئیڈیل شخصیات تصورکر رکھا ہے اور انہی کے اقوال وافعال ان کیلئے نمونہ اور قابلِ تقلید ہیں۔ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰه ۔ جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ تصور کرتے تھے اور تمام اقوال وافعال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے تھے ۔الا یہ کہ کوئی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہوتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انھیں دل سے چاہتے تھے اور ان سے سچی محبت کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہنی تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں نے سونے کی انگوٹھی پہنی تھی ۔‘‘اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی اتار کر پھینک دی او ر فرمایا:(( إِنِّیْ لَنْ أَلْبَسَہُ أَبَدًا)) ’’اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ ‘‘[1] چنانچہ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں ۔ لہٰذا ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ تصور کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کرنی چاہئے ، عقائد وعبادات میں ، اخلاق وکردار میں ، معاملات میں اور اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا چاہئے ۔۔۔۔ لیکن افسوس ہے کہ آج ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے اور آپ سے محبت کا دعوی کرنے والے لوگوں کے روز مرہ معمولات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولاتِ زندگی میں اور اِس دور کے اکثر مسلمانوں کے معمولاتِ زندگی میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ عقائد کے باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اللہ تعالیٰ کو پکارنے والے اور اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرنے والے جبکہ آج کے بیشتر مسلمان غیر اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرتے اور اسے پکارتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کو نفع ونقصان کا مالک سمجھنے والے جبکہ آج کے اکثر مسلمان فوت شدہ بزرگانِ دین سے نفع کی امید بھی رکھتے ہیں اور ان سے نقصان کا خوف بھی کھاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر کو بھی سجدہ گاہ بنانے سے منع کرنے والے اور ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجنے والے جبکہ اِس دور کے مسلمان بزرگوں کی قبروں پر مزارات تعمیر کرتے اور اپنی مرادوں کیلئے ان کا رخ کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور عبادات کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سانس تک نمازوں کی سختی سے پابندی کرنے
[1] صحیح البخاری:7298، صحیح مسلم:2061