کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 208
اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے میری جان سے اور اسی طرح میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔ اور میں جب گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو یاد کرتا ہوں ، پھر میں صبر نہیں کرسکتا یہاں تک کہ آپ کے پاس آؤں اور آپ کو دیکھ لوں ۔ اور میں جب اپنی موت اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ آپ جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو آپ کو انبیاء (علیہم السلام ) کے ساتھ ( اعلی درجات میں ) بھیج دیا جائے گا ۔ اور اگر میں جنت میں داخل ہوا تو مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں وہاں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام ) یہ آیت لے کر نازل ہوئے: {وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا } [1] ’’ اور جو لوگ اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کریں گے وہ ( جنت میں ) ان کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے ۔ یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین اور یہ لوگ بڑے اچھے ساتھی ہو نگے ۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع ہی در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی محبت کی دلیل ہے ۔ اور اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنے والوں کو قیامت کے روز آپ کا ساتھ نصیب ہو گا کیونکہ ا س صحابی نے جب اس اندیشے کا اظہار کیا کہ شاید وہ جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اگر تم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو تمہیں انبیاء علیہم السلام کا ساتھ ضرور نصیب ہو گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صرف محبت کا دعوی ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری بھی ضروری ہے ۔ نیز حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام لانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید بغض رکھتا تھا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ فرماتے ہیں : (وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَلَا أَجَلَّ فِیْ عَیْنَیَّ مِنْہُ ، وَمَا کُنْتُ أُطِیْقُ أَنْ أَمْلأ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلاَلاً لَہُ ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ ، لِأنِّیْ لَمْ أَکُنْ أَمْلأ عَیْنَیَّ مِنْہُ ۔۔۔۔)[2]
[1] رواہ الطبرانی فی الصغیر والأوسط،وقال الہیثمی:رجالہ رجال الصحیح غیر عبد اﷲ بن عمران العابدی وہو ثقۃ [2] صحیح مسلم:121