کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 205
پہنچایا اسے کامل تصور کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کو درست نہ سمجھا جائے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کیا جائے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے پرہیز کیا جائے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو زندہ کیا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ توحید کو خوب پھیلایا جائے ، شرک وبدعت کے خلاف جہاد کیا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنایا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی اور من گھڑت باتوں کو منسوب نہ کیا جائے۔
اِس موضوع کی مناسبت سے یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود سے زیادہ نہ ہو کیونکہ انہی حدود کے اندر رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم تو بجا ہے بلکہ ایمان کا حصہ ہے ، لیکن ان سے تجاوز کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ[1]))
’’ میری تعریف وتعظیم میں حد سے تجاوز نہ کرو ، جیسا کہ نصاری نے عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) کی تعریف وتعظیم میں حد سے تجاوز کیا ۔ میں تو محض ایک بندہ ہوں ، لہٰذا تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو ۔ ‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اختیارات کا مالک تصور کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت روا یا مشکل کشا ، یا غوث تصور کرنا حرام ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام اور تعظیم کی جو حد مقرر کردی گئی ہے اس سے تجاوز ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{ قُلْ لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَائَ اللّٰہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْئُ إِنْ أَنَا إِلاَّ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ }[2]
’’ کہہ دیجئے کہ مجھے تو خود اپنے نفع ونقصان کا اختیار بھی نہیںہے ، مگر اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔ میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان کیلئے جو ایمان لے آئیں ۔ ‘‘
نیز فرمایا : { قُلْ لاَّ أَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلاَ أَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلاَ أَقُوْلُ لَکُمْ إِنِّیْ مَلَکٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوْحٰی إِلَیَّ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الْأعْمٰی وَالْبَصِیْرُ أَفَلاَ تَتَفَکَّرُوْنَ }[3]
’’ آپ ان سے کہئے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ ہی میں غیب کی باتیں جانتا
[1] صحیح البخاری
[2] الأعراف7 :188
[3] الأنعام6 :50