کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 204
ان پر اتارا گیا ہے ، ایسے لوگ ہی کامیابی پانے والے ہیں ۔ ‘‘
نیز فرمایا:{ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا٭ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلاً }[1]
’’ یقینا ہم نے تجھے گواہی دینے والا ، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ ( اے مسلمانو ) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ، اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو ۔ اور صبح وشام اس ( اللہ ) کی تسبیح بیان کرو ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر اور تعظیم کس طرح کرتے تھے اس کی ایک جھلک قصۂ صلحِ حدیبیہ میں نظر آتی ہے ۔
حضرت عروۃ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ‘ جو اس وقت مشرک تھے اور قریش کے نمائندہ بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے ، وہ جب قریش کے پاس واپس لوٹے تو انھوں نے کہا :
(أَیْ قَوْمِ،وَاللّٰہِ لَقَدْ وَفَدْتُّ عَلَی الْمُلُوْکِ،وَوَفَدْتُّ عَلٰی قَیْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِیِّ، وَاللّٰہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم مُحَمَّدًا، وَاللّٰہِ إِنْ یَتَنَخَّمُ نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِیْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ،وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہُ،وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْ یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِہٖ ، وَإِذَا تَکَلَّمُوْا خَفَضُوْا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ،وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیْمًا لَّہُ ) [2]
’’ اے میری قوم ! اللہ کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں سے مل چکا ہوں ، میں نے قیصر وکسری اور نجاشی جیسے بادشاہ دیکھے ہیں لیکن اللہ کی قسم میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کی اس کے ساتھی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ان کے ساتھی کرتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! اگر وہ کھنکھارتے بھی ہیں تو ان کے منہ سے نکلنے والا بلغم ان کے کسی ساتھی کی ہتھیلی میں ہی گرتا ہے جسے وہ اپنے چہرے اور اپنی جلدپر مل لیتا ہے۔ اور جب وہ کوئی حکم جاری کرتے ہیں تو ان کے ساتھی فورا اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو ان کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وضو والا پانی اسے مل جائے ۔ اور جب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے پاس اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اور ان کی تعظیم کی بناء پر ان کی نظروں سے نظر نہیں ملاتے ۔۔۔۔ ‘‘
برادرانِ اسلام ! یہ بات یاد رکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین امت تک
[1] الفتح48 :9-8
[2] صحیح البخاری، الشروط، باب الشروط فی الجہاد :2731-2732