کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 203
رضی اللہ عنہ نے کہا :آپ نے تو بس میری مخالفت ہی کرنی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ، میں آپ کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اس کے بعد ان دونوں کے مابین تکرار ہوئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں ۔ اسی موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :{یَا أَیُّہَا الذَِّیْنَ آمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِی }
حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر پست آواز میں بات کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ آپ نے کیا کہا ہے ۔ ‘‘[1]
اور حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جن کی آواز فطری طور پر بلند تھی ان کے متعلق حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہونا بند کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں جا کر ان کی خبر لے آؤں۔ [صحیح مسلم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی خبر لینے گیا تھا وہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے اور یہ ان کے پڑوسی بھی تھے ]
پھر جب یہ آدمی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے (پریشان ) بیٹھے ہیں۔ اس نے پوچھا : آپ کو کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : میرا بہت برا حال ہے کیونکہ میری آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی ہے۔ اس لئے میرا عمل ضائع ہو چکا ہے اور اب میں جہنم والوں میں سے ہوں ۔ ان کا یہ جواب سن کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور آپ کو ان کے متعلق خبر دی کہ وہ ایسے ایسے کہہ رہے ہیں ۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان کے پاس دوبارہ بھیجا کہ جاؤ انھیں خوشبری سناؤ کہ آپ جہنم والوں میں سے نہیں بلکہ جنت والوں میں سے ہیں ۔ ‘‘[2]
ان دونوں واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کا شدید احترام کرتے تھے اور ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انھیں یہ بات ہرگز گوارا نہ تھی کہ ان کی آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی ہو ۔
اللہ تعالیٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر واحترام کرنے والوں کو بشارت سناتے ہوئے فرماتا ہے :
{ فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ أُنْزِلَ مَعَہُ أُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ }[3]
’’ لہٰذا جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی تعظیم اور مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو
[1] صحیح البخاری:4845 ،4847
[2] صحیح البخاری:4846،صحیح مسلم :119
[3] الأعراف7 :157