کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 194
وہ کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ لا الہ الا اللّٰه پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ لا الہ الا اللّٰه پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اب تم سو مرتبہ سبحان اللّٰه پڑھو تو وہ سو مرتبہ سبحان اللّٰه پڑھتے ہیں !
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ نے یہ سب کچھ دیکھ کر ان سے کیا کہا ؟
انھوں نے جواب دیا : میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں انھیں کچھ بھی نہیں کہا ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ نے انھیں یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے گناہوں کو شمار کریں(نہ کہ نیکیوں کو) اور آپ انھیں گارنٹی دیتے کہ تمھاری نیکیوں میں سے کوئی نیکی ضائع نہیں ہو گی!
پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اور اُن حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس جا کر فرمایا : یہ تم کیا کر رہے ہو ؟
لوگوں نے کہا : ابو عبد الرحمن ! یہ کنکریاں ہیں جن کے ذریعے ہم اللّٰه اکبر ، لا الہ الا اللّٰه اور سبحان اللّٰه کی تسبیحات شمار کر رہے ہیں !
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم اپنی برائیاں شمار کرو اور میں تمھیں ضمانت دیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی ۔ پھر فرمایا :
(وَیْحَکُمْ یَا أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ،مَا أَسْرَعَ ہَلَکَتُکُمْ،ہٰؤلَائِ صَحَابَۃُ نَبِیِّکُمْ صلي اللّٰه عليه وسلم مُتَوَافِرُوْنَ وَہٰذِہٖ ثِیَابُہُ لَمْ تَبْلُ وَآنِیَتُہُ لَمْ تُکْسَرْ،وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ إِنَّکُمْ لَعَلٰی مِلَّۃٍ ہِیَ أَہْدٰی مِنْ مِلَّۃِ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم أَوْ مُفْتَتِحُو بَابَ ضَلَالَۃٍ ؟ )
’’ افسوس ہے تم پر اے امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم کتنی جلدی ہلاکت کی طرف چل دئیے ! یہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ابھی بکثرت موجود ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں ، اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے بہتر طرز عمل پر ہو یا تم گمراہی کا ایک دروزاہ کھول رہے ہو! ‘‘
لوگوں نے کہا :( وَاللّٰہِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ،مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ )
ابو عبد الرحمن ! اللہ کی قسم ہم نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا تھا ۔
انھوں نے فرمایا:(وَکَمْ مِنْ مُرِیْدٍ لِلْخَیْرِ لَن یُّصِیْبَہُ)
’’ کتنے لوگ ہیں جو خیر کا ارادہ کرتے ہیں لیکن وہ خیر کو ہرگز نہیں پا سکیں گے ۔‘‘[1]
[1] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:2005