کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 193
ایجاد کیا گیا ہو وہ سب سے برا کام ہے چاہے وہ لوگوں کی نظر میں کتنا اچھا کیوں نہ ہو ۔ اور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ذرا سوچیں کہ اگر کارِ خیر کے نام پر دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرنا جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُن تین اشخاص کو تنبیہ کیوں کرتے جن میں سے ایک نے پوری رات قیام کرنے ، دوسرے نے ہمیشہ روزے رکھنے اور تیسرے نے عورتوں سے شادی نہ کرنے کا عزم کیا تھا ؟ کیا ان کے عزائم خیر کے کاموں کے متعلق نہ تھے ؟ کیا ان تینوں اشخاص نے کسی برے عمل کا ارادہ کیا تھا کہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سخت تنبیہ کی ؟ یقینا انھوں نے خیر کے کاموں کا ہی ارادہ کیا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ان عزائم کی تردید کردی کیونکہ وہ اگرچہ خیر کے کاموں کے متعلق ہی تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ کر تھے اور گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی کوشش ہو رہی تھی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بدعتِ حسنہ نام کی کوئی چیز اسلام میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک خیر کا کوئی عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ثابت نہ ہو اس وقت تک وہ خیر کہلا سکتا ہے اورنہ وہ دین کا حصہ ہوتا ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ )) [1] ’’ جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا ، وہ مردود ہے ۔‘‘ مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:(( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ )) ’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ، وہ مردود ہے۔ ‘‘ اِس حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ دین میں ہر نیا کام اور ہر نیا طریقہ مردود اور ناقابل قبول ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور ان سے کہا : میں نے ابھی مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے جسے میں درست نہیں سمجھتا حالانکہ میں نے الحمد للہ خیر ہی کو دیکھا ہے ! انھوں نے کہا : وہ کیا ہے ؟ ابو موسی رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ خود جب مسجد میں جائیں گے تو آپ بھی دیکھ لیں گے ۔ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مختلف حلقوں میں بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں او رہر حلقہ میں ایک آدمی باقی لوگوں سے کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ اﷲ اکبر پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ اللّٰه اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر
[1] صحیح البخاری:2697،صحیح مسلم :1718