کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 189
لہٰذا یہ جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ ہر وہ عمل جو لوگوں کے نزدیک خیر وبھلائی کاعمل تصور کیا جاتا ہو وہ اس وقت تک خیر وبھلائی کا عمل نہیں ہو سکتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی حکم یا ترغیب ثابت نہ ہو ۔ اسی طرح برا عمل ہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی فرمان ثابت نہ ہو وہ برا تصور نہیں ہوگا ۔ گویا خیر وشر کے پہچاننے کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،کسی کا ذوق ورغبت نہیں کہ جس کا جی چاہے دین میں اپنے زعم کے مطابق خیر کے کام داخل کرتا رہے یا اپنی منشا کے مطابق کسی عمل کو برا قرار دے دے۔
پھر یہ بات بھی سوچنی چاہئے کہ کیا نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( معاذ اللہ ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اولیں ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے جس کی بناء پر اب بھی دین میں کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے ؟ یقینا یہ بات لازم آتی ہے ۔
اسی لئے امام مالک رحمہ اللہ فرماتے تھے :
’’مَنِ ابْتَدَعَ فِی الإِسْلاَمِ بِدْعَۃً یَرَاہَا حَسَنَۃً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلي اللّٰه عليه وسلم خَانَ الرِّسَالَۃَ، اِقْرَؤُا قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی{اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِیْنًا} وَلَا یَصْلُحُ آخِرُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ إِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہٖ أَوَّلُہَا ، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لَا یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا ‘‘
’’ جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی ، پھر یہ خیال کیا کہ یہ اچھائی کا کام ہے تو اس نے گویا یہ دعوی کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت ( اللہ کا دین پہنچانے) میں خیانت کی تھی ( یعنی پورا دین نہیں پہنچایا تھا ۔) تم اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو : ( ترجمہ )’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا‘‘ … پھر امام مالک رحمہ اللہ نے کہا : اس امت کے آخری لوگ بھی اسی چیز کے ساتھ درست ہو سکتے ہیں جس کے ساتھ اس امت کے پہلے لوگ درست ہوئے تھے ۔ اورجو عمل اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا ۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ کا یہ فرمان کہ ’’ جو عمل اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا ‘‘قیامت تک کے لوگوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور ہر دینی مسئلہ کا ثبوت قرون اولی سے ڈھونڈنا چاہئے ۔ اگر اس کا ثبوت اس وقت سے مل جائے تو اس پر عمل کرلیا جائے ورنہ اسے قطعا دین کا تصور نہ کیا جائے ۔