کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 187
میں مروجہ عید میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حیثیت نہیں ۔ تاہم اِس کی مزید وضاحت کیلئے اب ہم کچھ ایسے اصول بیان کرنا چاہتے ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ان کی بناء پر اِس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا کہ مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دین میں ایک نیا کام ( بدعت ) ہے ۔ (۱) اسلام ایک مکمل دین ہے اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق واضح تعلیمات موجود ہیں ۔ اس لئے شارع نے اس میں کمی بیشی کرنے کی کسی کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی … لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمان نہ صرف اسلام کی ثابت شدہ تعلیمات سے انحراف کرتے جا رہے ہیں بلکہ غیر ثابت شدہ چیزوں کو اس میں داخل کرکے انہی کو اصل اسلام تصور کر بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ جب دین مکمل ہے اور اس کی ہدایات واضح ، عالمگیر اور ہمیشہ رہنے والی ہیں تو نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے انھیں اس کا حصہ بنا دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا}[1] ’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔‘‘ سو اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا دین ہمارے لئے مکمل کردیا ، ورنہ اگر اسے نامکمل چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور یوں دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔ اللہ رب العزت کے اس عظیم احسان کی قدروقیمت کا اندازہ آپ صحیحین کی ایک روایت سے کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک یہودی عالم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین ! کتاب اللہ (قرآن مجید ) میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو بطورِعید مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ آیت کونسی ہے ؟ تو اس نے کہا:{اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا}تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ آیت عید کے دن ہی نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں تھے اور وہ دن جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ ‘‘[2]
[1] المائدۃ5:3 [2] صحیح البخاری:45،صحیح مسلم :3017