کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 186
اِن تمام حقائق سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ۔ لہٰذا آپ ذرا غور کریں کہ جب اِس جشن کا نہ قرآن وحدیث میں ثبوت ملتا ہے ، نہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل میں اِس کا وجود نظر آتا ہے ، نہ قرون اولی کی پوری تاریخ میں اِ س کا تصور پایا جاتا ہے اور نہ ائمۂ دین رحمہ اللہ اِس کے قائل تھے تو پھر آج کے مسلمان اِس کے منانے پر کیوں بضد ہیں ؟ کیا اُن سب حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت نہ تھی جس کا دعوی اِس دور کے لوگ کر رہے ہیں ؟ اگر تھی اور یقینا اِن لوگوں سے کہیں زیادہ تھی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت کیوں نہ منایا؟ یہاں ایک اور بات نہایت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام بطورِ عبادت نہیں کیا وہ قطعا دین کا حصہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اسے دین سمجھ کر یا کارِ خیر تصور کرتے ہوئے سر انجام دے ۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عیدین اور نماز جنازہ کیلئے اذان نہیں کہلوائی اور نہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں اِس کا کوئی وجود تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہلوائی اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں اِس کا کوئی وجود نہ تھا تو قیامت تک کسی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اِسے دین کا حصہ یا عبادت تصور کرے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا اذان میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور ذکر اللہ نہیں ہے ؟ یقینا اذان اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی بڑائی پر مشتمل ہے لیکن نماز عیدین اور نماز جنازہ سے پہلے مشروع نہیں ہے ۔ اسی طرح ’جشن میلاد ‘کا مسئلہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جشن نہیں منایا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے منایا تو قیامت تک اسے دین کا حصہ یا کارِ ثواب تصور کرنا درست نہیں ہے ۔ اسی لئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے : (کُلُّ عِبَادَۃٍ لَمْ یَتَعَبَّدْہَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَلاَ تَعْبُدُوْہَا) ’’ ہر وہ عبادت جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نہیں کرتے تھے اُسے تم بھی عبادت سمجھ کر نہ کیا کرو ۔ ‘‘ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے: (اِتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ ، عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِیْقِ) [1] ’’تم اتباع ہی کیا کرو اور (دین میں ) نئے نئے کام ایجاد نہ کیا کرو کیونکہ تمھیں اِس سے بچا لیا گیا ہے اور تم اُسی امر کو لازم پکڑو جو پہلے سے ( صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے ) موجود تھا ۔ ‘‘ ہم نے اب تک جو مدلل گفتگو کی ہے اگرچہ یہ ایک سنجیدہ اور دیانتدار آدمی کو سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ شریعت
[1] حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم للألبانی،ص100