کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 185
(موصل)المتوفی ۱۸ رمضان ۶۳۰ نے کی۔ یہ بادشاہ ان محفلوں میں بے دریغ پیسہ خرچ کرتااور آلاتِ لہو و لعب کے ساتھ راگ ورنگ کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔
مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں: اہل تاریخ نے صراحت کی ہے کہ بادشاہ بھانڈوں اور گانے والوںکو جمع کرتا اور گانے کے آلات سے گانا سنتا اور خود ناچتا ۔ ایسے شخص کے فسق اور گمراہی میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اس جیسے کے فعل کو کیسے جائز اور اس کے قول پرکیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ! [1]
نیز کہتے ہیں: مختصر کیفیت اس فسق کی اور ایجاد اس بدعت کی یہ ہے کہ مجلس مولود کے اہتمام میں بیس قبے لکڑی کے بڑے عالیشان بنواتا اور ہر قبہ میں پانچ پانچ طبقے ہوتے ۔ ابتدائے ماہِ صفر سے ان کو مزین کرکے ہر طبقہ میں ایک ایک جماعت راگ گانے والوں ، ٹپہ خیال گانے والوں ، باجے ،کھیل تماشے اورناچ کود کرنے والوں کی بٹھائی جاتی اور بادشاہ مظفر الدین خود مع اراکین وہزار ہا مخلوق قرب و جوار کے ہر روز بعد از عصر ان قبوں میں جاکر ناچ رنگ وغیرہ سن کر خوش ہوتا اور خود ناچتا ۔ پھر اپنے قبہ میں تمام رات رنگِ لہو ولعب میںمشغول ہورہتا اور قبل دو روز ایام مولود کے اونٹ ،گائیں ،بکریاں بے شمار طبلوں اور آلاتِ گانے ولہو کے ساتھ جتنے اس کے یہاں تھے نکال کر میدان میں ان کو ذبح کراکر ، ہر قسم کے کھانوں کی تیاری کراکر مجالسِ لہو کو کھلاتا اور شب مولود کی کثرت سے راگ قلعہ میں گواتا تھا ۔[2]
یہ تو تھا اِس کا موجد ۔ اور جہاں تک اِس کے جواز کا فتوی دینے والے شخص کانام ہے تو وہ ہے ابوالخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن وحیۃ کلبی متوفی ۶۳۳ھ ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ابن نجار کہتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو اسکے جھوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ۔‘‘ [3]
’’ وہ ائمہ دین اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرنے والا اور خبیث زبان والا تھا ۔ بڑا احمق اورمتکبر تھا اور دین کے کاموں میں بڑا بے پرواہ تھا۔‘‘[4]
یہ وہ شخص تھا جس نے ملک ِ اربل کو جب محفل ِ میلاد منعقد کرتے دیکھا تو نہ صرف اس کے جواز کا فتوی دیا بلکہ اس کے لئے مواد جمع کر کے ایک کتاب بنام ’’التنویر فی مولد السراج المنیر‘‘بھی لکھ ڈالی ۔ اسے اس نے بادشاہِ اربل کی خدمت میں پیش کیا تواس نے اس کے صلہ میں اس کو ایک ہزار اشرفیوں کا انعام دیا ۔[5]
[1] فتاویٰ رشیدیہ: ص132
[2] فتاویٰ رشیدیہ:ص132
[3] لسان المیزان:295/2
[4] لسان المیزان:296/2
[5] وفیات الأعیان لابن خلکان :449/3