کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 175
آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے؟
حضرت عیسی علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا۔اور انھیں اپنی کوئی غلطی یاد نہیں آئے گی ( مگر پھر بھی وہ کہیں گے: ) (نَفْسِیْ نَفْسِیْ )آج تو مجھے بس اپنی ہی فکر لاحق ہے ، تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ ۔تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور کہیں گے :
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الأنبیاء ہیں اور آپ کی اگلی پچھلی خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کردی ہیں، آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر اللہ تعالیٰ مجھے شرحِ صدر عطا کرے گا اور مجھے اپنی حمد وثنا ء کے ایسے ایسے الفاظ الہام کرے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر اس نے الہام نہیں کئے تھے ، پھر کہے گا :
(( یَا مُحَمَّدُ ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ،سَلْ تُعْطَہْ، اِشْفَعْ تُشَفَّعْ))
اے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو آپ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا ۔ اور آپ شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا :( یَا رَبِّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ) اے میرے رب ! میری امت ( کو معاف کردے ) میری امت ( کو جہنم سے بچا لے ۔)
کہا جائے گا : (( أَدْخِلِ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِکَ مَنْ لَّا حِسَابَ عَلَیْہِ مِنَ الْبَابِ الْأیْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ وَہُمْ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیْمَا سِوَی ذٰلِکَ مِنَ الْأبْوَابِ)) [1]
اے محمد ! اپنی امت کے ہر اس شخص کو جو حساب وکتاب سے مستثنیٰ ہے جنت کے دائیں دروازے سے جنت میں داخل کردیں ، یہ لوگ جنت کے باقی دروازوں سے بھی آنے جانے کے مجاز ہو نگے ۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! بے شک جنت کے ہر دو کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا جتنا مکہ مکرمہ اور ہجر کے درمیان یا مکہ مکرمہ اور بُصری کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری کی روایت میں مکہ مکرمہ اور حمیر کا ذکر ہے ۔)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہونگے ، ہر امت
[1] صحیح البخاری:7410،صحیح مسلم:194