کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 173
’’ میں روزِقیامت اولادِ آدم کا سردار ہو نگا اور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے ۔ میرے ہاتھ میں ’’ الحمد ‘‘ کا جھنڈا ہو گا اور اس میں بھی کوئی فخر کی بات نہیں ہے ۔ اس دن حضرت آدم ( علیہ السلام ) اور ان کے علاوہ دیگر تمام انبیاء میرے جھنڈے تلے جمع ہو نگے ۔ سب سے پہلے میں شفاعت کرونگا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور اس میں بھی کوئی فخر کی بات نہیں ہے ۔ ‘‘ ۳۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنَا أَکْثَرُ الْأنْبِیَائِ تَبِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یَّقْرَعُ بَابَ الْجَنَّۃِ )) [1] ’’ قیامت کے دن دوسرے تمام انبیاء کی نسبت سب سے زیادہ پیروکار میرے ہو نگے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ ‘‘ ۴۔ مقامِ محمود … تمام اہلِ محشر کیلئے شفاعت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہو ںگااور کیا تمھیں پتہ ہے کہ ایسا کس طرح ہو گا؟ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کرے گا جہاں ایک منادی ( پکارنے والے ) کی آواز کو سب سن سکیں گے اور سب کو بیک نظر دیکھا جا سکے گا ۔ سورج قریب آجائے گا اور لوگوں کے غم اور صدمے کا یہ عالم ہو گا کہ وہ بے بس ہو جائیں گے اور اپنی پریشانیوں کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم سب کی حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟ تو کیا تم کسی ایسے شخص کو نہیںڈھونڈتے جو تمہارے رب کے ہاں تمھارے حق میں شفاعت کر ے ؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے : چلو آدم ( علیہ السلام ) کے پاس چلتے ہیں ، پھر ان کے پاس جاکر ان سے کہیں گے: اے آدم ! آپ ہمارے اور تمام انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح سے روح پھونکی اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا تووہ آپ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے، آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا کیا عالم ہے ؟ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھااور نہ ہی پھر کبھی ہو گا ۔ اور اس نے مجھے درخت کے قریب جانے سے منع کیا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی ۔
[1] صحیح مسلم:196