کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 167
اور وہ جب واپس لوٹے تو ہماری ہنڈیا ابھی پہلے کی طرح جوش مار رہی تھی اور روٹی بدستور پکائی جا رہی تھی ۔ (یعنی نہ سالن ختم ہوا ا ور نہ آٹا ) [1]
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن ایک درخت یا ایک کھجور کی طرف کھڑے ہوتے تھے ۔ ایک انصاری عورت یا ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کیلئے منبر نہ تیار کردیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اگر تمھارا دل چاہتا ہے تو ٹھیک ہے ۔‘‘
چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے منبر تیار کردیا اور جب جمعہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کیلئے اسی منبر کی طرف متوجہ ہوئے ، لیکن کھجور کا وہ درخت چھوٹے بچوں کی طرح رونے لگ گیا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا ۔ اس پر وہ اِس طرح سسکیاں بھرنے لگا جیسے روتا ہوا بچہ ُاس وقت سسکیاں بھرتا ہے جب اسے خاموش کرایا جا رہا ہو ۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( کَانَتْ تَبْکِیْ عَلٰی مَا کَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّکْرِ عِنْدَہَا)) [2]
’’ یہ اس بات پر رو رہا تھا کہ اپنے قریب جو ذکر سنا کرتا تھا (اب اس سے دور ہو گیا ہے ) ۔ ‘‘
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنِّیْ لَأعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّۃَ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ،إِنِّیْ لَأعْرِفُہُ الْآنَ[3]))
’’ بے شک میں مکہ مکرمہ میں اس پتھر کو جانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کہا کرتا تھا ۔ اور میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں ۔ ‘‘
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فضائل ومعجزات ذکر کئے ہیںاور ظاہر ہے کہ اس مختصر سے خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فضائل ومعجزات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کو پہچاننے کی توفیق دے۔آمین
[1] صحیح البخاری:3070،صحیح مسلم :2039
[2] صحیح البخاری:3584
[3] صحیح مسلم :2277