کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 158
’’ میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں اور میری نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اسے لمبی کروں گا لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کردیتا ہوں ، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے رونے کیوجہ سے اس کی ماں اس پر ترس کھاتی ہے ۔ ‘‘ 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ کچھ دیہاتی لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : کیا آپ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں ؟ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : ہاں ۔ تو وہ کہنے لگے : اللہ کی قسم ! ہم اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَوَ أَمْلِکُ إِنْ کَانَ اللّٰہُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَۃَ)) [1] ’’ اگر اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں سے رحمت کو کھینچ لیا ہے تو میں کیا کروں ؟ ‘‘ 3۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:{ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَإِنَّہُ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَإِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ } ’’ اے میرے رب ! انھوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے ، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘ اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ آیت بھی تلاوت کی : { إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } ’’ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تُو سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور فرمانے لگے : (( اَللّٰہُمَّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ)) ’’ اے اللہ میری امت ، میری امت ! ‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اے جبریل ! جاؤ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس ۔ اور تیرا رب اگرچہ خوب جانتا ہے لیکن جاکر ان سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ لہٰذا حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ کیوں رو رہے
[1] صحیح البخاری:5998،صحیح مسلم:2317