کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 156
’’ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔(ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ۔ ‘‘ اور فرمایا: { قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی ہَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلًا }[1] ’’ آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب پاک ہے ، میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں ۔ ‘‘ دوسری یہ کہ اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر تمھاری ہر قسم کی تکلیف ومشقت گراں گذرتی ہے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین میں آسانی کو پسند فرماتے تھے اور جس کام میں امت پر مشقت محسوس فرماتے اسے چھوڑ دیتے ۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ، ان میں سے ایک یہ کہ معراج کے موقعہ پر جب اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کیں تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے ان میں بار بار تخفیف کی درخواست کی حتی کہ یہ پانچ رہ گئیں۔ دوسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح تین راتیں باجماعت ادا کی ، پھر چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کردیا اور فرمایا: مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تم پر فرض نہ کردی جائے ۔ اور تیسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر مجھے امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہو تا تو میں امت کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔‘‘ یہ تینوں مثالیں ( اور ان کے علاوہ اور کئی مثالیں ) اس بات کی دلیل ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کی مشقت برداشت نہیں تھی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( أَحَبُّ الْأَدْیَانِ إِلیَ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَلْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ)) [2] ’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب دین ‘ دین ِ حنیفی ہے جوکہ آسان ہے ۔ ‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ،وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ،فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا،وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ[3])) ’’بے شک دین آسان ہے اور جو آدمی دین میں تکلف کرے گا اور اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آ جائے گا۔ لہٰذا تم اعتدال کی راہ اپناؤ ، اگر کوئی عبادت مکمل طور پر نہ کر سکو تو قریب قریب ضرور کرو ، عبادت کے اجر وثواب پر خوش ہو جاؤ اور صبح کے وقت ، شام کے وقت اور رات کے آخری حصہ میں عبادت کرکے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو ۔‘‘
[1] الإسراء17 :93 [2] صحیح الجامع:160 [3] صحیح البخاری ،کتاب الإیمان :39