کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 150
’’ جو شخص کسی کاہن ( علمِ غیب کا دعویٰ کرنے والے کسی عامل ) کے پاس جائے ، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے دین ِ الٰہی سے کفر کیا ۔ ‘‘
لہٰذا ایسے لوگوں کے پاس جا کر اپنے دین کا سودا ہرگز نہیں کرنا چاہئے ۔ اور دین کے تحفظ کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم نہ ایسے لوگوں کے پاس جائیں اور نہ ان سے کوئی سوال کریں ۔ بلکہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھیں اور نفع ونقصان کا مالک اکیلئے اللہ تعالیٰ کو تصور کریں ۔ یہ اسلامی عقیدہ کا بڑا اہم مسئلہ ہے جس میں آج بہت سارے مسلمان بھٹک چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے اور ہمیں عقیدہ وعمل کی اصلاح کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھنا اور محض اسی کو نقع ونقصان کا مالک تصور کرنا اتنا بڑا عمل ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جن خوش نصیبوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو بھی شمار کیا جو دم وغیرہ کروانے کیلئے کسی کے پاس نہیں جاتا اور وہ خود ہی قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیتا ہے ۔ وہ بد شگونی نہیں لیتا اور محض اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھتا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ مجھ پر ( سابقہ ) امتیں پیش کی گئیں ۔چنانچہ میں نے ایک نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ محض چند افراد (دس سے کم ) ہیں ۔ ایک نبی کے ساتھ صرف ایک دو آدمی ہیں ۔ اور ایک نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے ۔ پھر اچانک مجھے ایک بہت بڑی جماعت دکھلائی گئی ۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہی میری امت ہے ۔ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ہے ۔ آپ ذرا اس افق کی جانب دیکھئے ۔ میں نے دیکھا تو ایک سوادِ عظیم ( لوگوں کا بہت بڑا گروہ ) نظر آیا ۔ پھر مجھے کہا گیا کہ اب آپ دوسرے افق کی جانب دیکھیں ۔ میں نے دیکھا تو ایک اور سوادِ عظیم نظر آیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو ئے اور اپنے گھر میں چلے گئے ۔ تو لوگ ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) ان سترہزار افراد کے متعلق غور وخوض کرنے لگے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں