کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 147
روانہ ہونا چاہتا تو وہ ایک پرندے کو اڑا کر دیکھتا ، اگر وہ دائیں طرف اڑتا تو روانہ ہوجاتا ۔ اوراگر بائیں طرف اڑتا تو اس سے بد شگونی لیکر واپس آجاتا ۔ شریعت نے اِس طرح کی بد شگونی سے منع کیا ہے ، بلکہ بد شگونی لینے اور فال نکالنے کو شرک قرار دیا ہے۔کیونکہ جو شخص اس طرح کرتا ہے وہ گویا اﷲ پر توکل نہیں کرتا بلکہ وہ اس چیز پر توکل کرتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِہٖ فَقَدْ أَشْرَکَ)) [1] ’’ جس شخص کو بدشگونی کسی کام سے روک دے تو اس نے یقینا شرک کیا ۔ ‘‘ بعض لوگ کسی شخص سے بد شگونی لیتے ہیں ۔ مثلا صبح سویرے اپنے کارو بار کیلئے کہیں جاتے ہوئے اگر کوئی مسکین یا مانگنے والا مل جائے تو کہتے ہیں یہ صبح سویرے ہی ٹکر گیا ، آج خیر نہیں ہے۔یا گھر میں اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کہتے ہیں یہ اِس منحوس عورت کی وجہ سے ہوا ہے یا اپنی اولاد میںسے کسی ایک سے بد شگونی لیتے ہوئے کہیں گے کہ اِس نقصان کا سبب یہ ہے ! تو اِس طرح کسی شخص سے بد شگونی لینا درست نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں پہلی قوموں کا ذکر کیا ہے وہاں کئی اقوام کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بد شگونی لیتے تھے اور جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو وہ کہتے کہ یہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے ۔ مثلا حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : {فَإِذَا جَاء تْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوا لَنَا ہَـذِہِ وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسَی وَمَن مَّعَہُ أَلاَ إِنَّمَا طَائِرُہُمْ عِندَ اللّٰہِ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ }[2] ’’ پس جب انھیں کوئی اچھی چیز ملتی تو کہتے کہ ہم تو ہیں ہی اس کے حقدار ۔ اور اگر ان کا کوئی نقصان ہو جاتا تو موسی اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے حالانکہ ان کی شومیٔ قسمت تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ کچھ نہیں جانتے ۔ ‘‘ اسی طرح دیگر کئی اقوام کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہی طرز عمل ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے نبیوں سے اور ان پر ایمان لانے والوں سے بد شگونی لیتے اور انہیں منحوس سمجھتے تھے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں کسی سے بد شگونی لے یا کسی کو منحوس تصور کرے ۔ بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اسے نقصان ہو نے سے پہلے بھی اس بات پر پختہ یقین ہو کہ اللہ
[1] صحیح الجامع للألبانی:6264 [2] الأعراف7 :131