کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 146
’’آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو اﷲ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے ۔ وہی ہمارا کارساز ہے۔ اور مومنوں کو تو اﷲ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے ۔ ‘‘ اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( وَاعْلَمْ أَنَّ الْأمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ،لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْئٍی قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ[1])) ’’ اور اس بات پر یقین کرلو کہ اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اﷲ نے تمھارے حق میں لکھدیا ہے ۔ اوراگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اﷲ نے تمھارے حق میں لکھدیا ہے ۔ ‘‘ برادران اسلام ! نفع ونقصان کے متعلق ہم نے جو بنیادی عقیدہ ذکر کیا ہے اِس کی مناسبت یہ ہے کہ یہ جو ماہِ صفر ہے اِس کو کئی لوگ منحوس مہینہ کہتے ہیں اور اِس میں کسی کام کی ابتداء کرنا درست نہیں سمجھتے کیونکہ ان کا اعتقاد یہ ہوتاہے کہ جو کام اِس مہینہ میں شروع کیا جائے گا اُس میں کوئی خیر وبرکت نہیں ہوگی اور وہ آخر کار ناکام ہی ہوگا۔ یعنی وہ اِس مہینہ سے خائف ہوتے ہیں کہ اِس میں تو خسارہ اور نقصان ہی ہوگا جبکہ جو عقیدہ ہم نے ابھی قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا ہے اُس کی رو سے یہ بالکل غلط ہے کہ کسی مہینہ کو منحوس تصور کرتے ہوئے اس میں کوئی کام شروع کرنے سے خوف کھایا جائے ۔ مہینے سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کے ہیں اور ہر مہینہ میں نفع ونقصان اللہ ہی کی طر ف سے ہوتا ہے ۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفْرَ )) [2] ’’ کوئی بیماری خود بخود متعدی نہیں ہوتی ۔ نہ بد شگونی لینا درست ہے اور نہ کسی پرندے کو منحوس سمجھنا درست ہے ۔ اور نہ ہی ماہِ صفرسے بد شگونی لینا صحیح ہے ۔ ‘‘ لہٰذا مسلمانوں کو یہ جاہلانہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے ۔ اِس کے بر عکس محض اللہ تعالیٰ پر ہی اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہئے کہ ہر قسم کا نفع ونقصان اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ اور نفع ونقصان کا کسی مہینے سے کوئی تعلق نہیں ۔ بد شگونی کیا ہوتی ہے ؟ بد شگونی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی کام کرنے کا پختہ عزم کرچکا ہو ، پھر کوئی چیز دیکھ کر یا کوئی بات سن کر وہ کام نہ کرے۔ جاہلیت کے زمانے میں کوئی شخص جب کسی کام کے لئے گھر سے
[1] الترمذی:2516،صحیح الجامع للألبانی:7957 [2] صحیح البخاری:5717، صحیح مسلم :2220