کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 136
اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا ، ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میں نے ابھی ساحلِ سمندر پر کچھ سائے دیکھے ہیں ، میرا خیال ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی ہیں ۔ سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں جان گیا کہ وہ وہی ہیں لیکن میں نے اس آدمی سے کہا : نہیں وہ کوئی اور ہونگے ! شاید تم نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے جو ابھی ہمارے سامنے یہاں سے گذرے تھے ۔ پھر میں مجلس میں کچھ دیر تک بیٹھا رہا ، اس کے بعد اٹھا اور گھر پہنچ کر میں نے اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ میرا گھوڑا لیکر ایک ٹیلے کے پیچھے میرا انتظار کرے ۔ میں نے اپنا تیر اٹھایا اور گھر کی پچھلی جانب سے نکل گیا ۔ پھر تیزی سے دوڑ کر اس ٹیلے تک جاپہنچا جہاں میری لونڈی میرا انتظار کر رہی تھی ۔ میں گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے ایک دم دوڑادیا ، حتی کہ میں جب ان کے قریب پہنچا تو میرے گھوڑے کے پاؤں پھسل گئے اور میں نیچے گرگیا ۔ میں اٹھا اور فال کے تیر اپنے تھیلے سے باہر نکالے ، پھر میں نے فال نکالا کہ کیا میں انھیں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں ؟ تو قرعہ ’نہیں ‘ میں نکلا ۔ لیکن میں نے ان تیروں کی نافرمانی کی اور پھر گھوڑے پر سوار ہوگیا ۔میں ان کے اتنا قریب جاپہنچا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی آواز سنی ، حالانکہ وہ پیچھے کی جانب التفات نہیں فرمارہے تھے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بار بار پیچھے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ اچانک میرے گھوڑے کے ہاتھ گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے ۔ میں نیچے گرگیا اور گھوڑے کو ڈانٹنے لگا ۔ گھوڑے نے بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ زمین سے باہر نکالے اور کھڑا ہوگیا ۔اس کے ہاتھوں کے ساتھ ہی آسمان کی طرف غبار آلود دھواں بلند ہوا ، چنانچہ میں نے پھر قرعہ نکالا اور پھر بھی وہی نتیجہ نکلا جو پہلے نکلا تھا ۔ اب میں نے انھیں امن کے ساتھ پکارا تو وہ رُک گئے ، میں گھوڑے پر سوار ہوا اور ان کے پاس پہنچ گیا ۔ میرے دل میں ایک بات آئی کہ جو کچھ آج میرے ساتھ ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امر ایک دن ضرور غالب آجائے گا ۔ میں نے ان سے کہا : آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنے یا قیدی بنانے پر انعام کا اعلان کررکھا ہے ۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کی خبریں بھی سنادیں اور میں نے زادِ راہ اور ساز وسامان کی پیشکش کی تو انھوں نے اسے ٹھکرادیا ۔ بس اتنا کہا کہ : ’’ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا ۔‘‘ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ وہ مجھے امن کی کوئی نشانی لکھ کردے دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا کہ وہ لکھ کردیں ۔ چنانچہ انھوں نے رنگے ہوئے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر مجھے امان لکھ کردی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے ۔[1]
[1] صحیح البخاری :3906