کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 135
سے جوکہ راستوں کے بارے میں بخوبی جانتا تھا یہ بات پہلے سے طے تھی کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی طرف سے خوب تیار کی ہوئی دو اونٹنیاں لے کر غارِ ثور پہنچے گاجہاں سے سفرِ مدینہ کا آغاز ہونا تھا۔ چنانچہ وہ حسبِ وعدہ تین راتوں کے بعد غارِ ثور پہنچ گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ، ان کے غلام عامر بن فہیرہ اور ان سب کے راہبر عبد اﷲ بن اریقط پر مشتمل یہ قافلہ ٔ ہجرت سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوا ۔اس سفر کی روئیداد صحیح بخاری میں مروی ہے ۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ’’ اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر اپنے پیچھے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو بٹھا یا ہوا تھا ، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ بوڑھے تھے اور پہچانے جاتے تھے جبکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جوان تھے اور پہچانے نہیں جاتے تھے۔راستے میں کوئی شخص حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے ملتا تو وہ ان سے پوچھتا : ابوبکر! یہ کون ہیں جو آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ جواب دیتے :’’ یہ راستے کی طرف میری راہنمائی کرتے ہیں۔ ‘‘ سننے والا یہی گمان کرتا کہ شاید یہ سفر کے راستے کی راہنمائی کرنے والا شخص ہے حالانکہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا قصد یہ ہوتا کہ یہ خیر کے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں …سفر کے دوران حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا توانھیں اچانک معلوم ہوا کہ کوئی گھوڑ سوار ان کا تعاقب کررہا ہے ۔ انھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے کی طرف التفات فرمایا اور اسے بددعا دیتے ہوئے فرمایا : ’’اے اﷲ ! اسے پچھاڑ دے ۔‘‘
چنانچہ گھوڑے نے اسے نیچے گرادیا اور ہنہنانے لگا ۔ سوار نے کہا : اے اﷲ کے نبی ! مجھے آپ جو چاہیں حکم دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنی جگہ پر رک جاؤ اور کسی کو ہمارا تعاقب نہ کرنے دینا ۔‘‘ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ یہ گھوڑ سوار دن کے شروع میں اﷲ کے نبی کا دشمن تھا اور دن کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محافظ بن گیا۔[1]
قصۂ سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ خود انہی کی زبانی
صحیح بخاری میں حضرت سُراقہ بن مالک رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ
ہمارے پاس کفارِ قریش کے کئی نمائندے آئے اور انھوں نے بتایا کہ قریش نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو قتل کرنے یا زندہ پکڑ کر لانے والے شخص کے لئے بھاری انعام کا اعلان کیا ہے ۔ ایک دن میں
[1] صحیح البخاری:3911