کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 133
’’ پھر نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اﷲ عنہ ایک غار میں جا پہنچے جو جبل ِ ثور میں واقع ہے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین راتیں ٹھہرے رہے ۔ رات کو ان کے پاس حضرت عبد اﷲ بن ابی بکر رضی اﷲ عنہ بھی پہنچ جاتے ، یہ ایک ذہین اور سمجھ دار نوجوان تھے ، دن بھر قریش کے ساتھ رہتے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو خبر سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے ۔ پھر رات کا سایہ پڑتے ہی غارِ ثور میں پہنچ جاتے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری رپورٹ سنا دیتے۔ پھر سحری کے وقت غار سے نکل کر مکہ پہنچ جاتے اور قریش یہی سمجھتے کہ اس نوجوان نے مکہ ہی میں رات گذاری ہے ۔اس کے علاوہ عامر بن فہیرہ ‘ جو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے غلام تھے ‘دن کے وقت بکریاں چراتے رہتے اور شام ہوتے ہی بکریاں غار ثور کی طرف ہانک کر لے جاتے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو بکریوں کا دودھ پیش کرتے اور صبح کی روشنی پھیلنے سے پہلے ہی وہاں سے چلے جاتے ۔‘‘[1] قریش غارِ ثور کے دہانے پر نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر سے نکلنے کے بعد ایک شخص ان مجرموں کے پاس سے گذرا جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ۔ اس نے ان سے پوچھا : تم کس کا انتظار کررہے ہو ؟ انھوں نے کہا : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا : اس نے کہا : تم رُسوا ہوچکے ہو اور خسارہ پاچکے ہو ! اﷲ کی قسم ! وہ تمہارے درمیان سے نکل کر جاچکے ہیں اور وہی تمہارے سروں پر مٹی ڈال کر گئے ہیں ۔چنانچہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ آرام کررہے ہیں ۔ انھوں نے صبح ہونے کا انتظار کیا اور جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ بیدار ہوئے تو مجرموں نے ان سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کہا : مجھے کوئی علم نہیں۔ مجرموں نے انھیں مارا پیٹالیکن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی معلومات لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر وہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے گھر آئے ، دروازہ کھٹکھٹایا ، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہما در وازے پر آئیں ۔ مجرموںنے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا : مجھے ان کے متعلق کوئی خبر نہیں ہے ۔ ظالم ابوجہل نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور انھیں طمانچہ دے مارا جس سے ان کے کان کا زیور نیچے گرگیا ۔[2] اس کے بعد قریش نے ہنگامی طور پر مکہ مکرمہ سے باہر جانے والے تمام راستوں پر سیکورٹی سخت کردی اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ میں سے ہر ایک کو زندہ یا مردہ حالت میں لانے والے شخص کے لئے سو سو اونٹ
[1] صحیح البخاری :3906 [2] صحیح البخاری :554/1