کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 131
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : پھر ہم نے دونوں کا سامانِ سفر جلدی سے تیار کیا اور ایک تھیلے میں رکھ دیا ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنی پیٹی کا ایک حصہ کاٹ کر تھیلے کا منہ باندھ دیا ۔اسی لئے انھیں’’ذات النطاقین‘‘ کہا جاتا تھا ۔[1]
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے اور رات کے آنے کا انتظار کرنے لگے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیراؤ
ادھر قریش کے مجرموں کو دن بھر سکون نہ آیا اور وہ ’’دار الندوہ ‘‘ میں کئے گئے فیصلے پر عملدر آمد کے لئے پروگرام بناتے رہے۔ انھوں نے اس غرض سے گیارہ نوجوانوں کا انتخاب کیا جن میں ابوجہل ، ابولہب ، اور امیہ بن خلف وغیرہ شامل تھے ۔ان شیطانوں نے رات کا اندھیرا پڑتے ہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئیں اوریہ بیک وقت ان پر حملہ آور ہوکر ان کا خاتمہ کردیں ۔جب آدھی رات گذر چکی تو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ۔ مجرموں کو یقین تھا کہ آج کے بعد محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ماننے والوں کا نام ونشان ہی باقی نہیں رہے گا ، لیکن اﷲ تعالیٰ ‘ جو کہ زمین وآسمان کی بادشاہت کا مالک ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے ‘ وہ غالب ہے اور اس پر کوئی طاقت غالب نہیں آسکتی ۔ فرمان الٰہی ہے :
{ وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاْ لِیُثْبِتُوْکَ أَوْ یَقْتُلُوْک أَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ }[2]
’’اور یاد کیجئے جب کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں ، یا آپ کو قتل کرڈالیں یا آپ کو جلا وطن کردیں۔ وہ تو اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اﷲ اپنی تدبیر کررہا تھا ۔اور سب سے مستحکم تدبیر والا اﷲ ہی ہے ۔‘‘
چنانچہ عین فیصلے کی گھڑی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کہا :
’’ تم میری چادر لپیٹ کر میرے بستر پر سو جاؤ اور فکر مند نہ ہونا ، تمھیں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔‘‘ [3]
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے ، اپنی مٹھی میں مٹی اٹھائی اورباہر کھڑے مجرموں میں سے ہر ایک کے سر پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالی ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی بصارت چھین لی تھی جس سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سے قاصر
[1] صحیح البخاری: 2318،3906
[2] الأنفال8 :30
[3] سیرت ابن ہشام:483/1