کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 130
اس طرح اس سے ہماری جان چھوٹ جائے گی اور اس کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہوجائے گا ۔ بنو عبد مناف ان تمام سے جنگ کرنے سے عاجز ہوں گے اور دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے ۔ چنانچہ ہم سب مل کر انھیں دیت ادا کردیں گے ۔
نجدی شیخ (ابلیس ) نے اس رائے کو بہت سراہا اور پارلیمنٹ کے تمام ارکان نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی اور اسے فوری طور پر واجب العمل قرار دیکر اجلاس برخاست ہوگیا ۔[1]
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ظالمانہ منصوبہ تیار ہوگیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں آگاہ کر دیااور انھیں بتلایا کہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ لہٰذا آج رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں ۔[2]
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور ہجرت کا آخری پروگرام طے کیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ، اچانک کسی نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اطلاع دی کہ دیکھو ! وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھے ہوئے آرہے ہیں ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے اس وقت کبھی ہمارے پاس نہیں آیا کرتے تھے ، تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا :
’’ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضروری امر کی بنا ء پر ہی اس وقت آرہے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی ، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اجازت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ کے پاس جو دوسرے لوگ ہیں انھیں کسی اور کمرے میں بھیج دو ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ اے اﷲ کے رسول ! یہ آپ کے گھر والے ہی تو ہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ،کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہجرت کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہاں ‘‘ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا : تو لیجئے ان دو سواریوں میں سے ایک آپ لے لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن میں یہ سواری قیمت کے عوض لوں گا ۔‘‘
[1] سیرت ابن ہشام:480/1 ۔482
[2] زاد المعاد:52/2