کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 128
ستم زدہ مسلمانوں کو اب ایک پر امن اسلامی وطن تو نظر آرہا تھا لیکن وہاں تک پہنچنا اتنا آسان نہ تھا ، کیونکہ مشرکین مکہ نے بھی انھیں مکہ سے نکلنے کی مہلت نہ دینے کا عزم کر رکھا تھا ۔ تاہم اﷲ رب العزت مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دینے اور اسلام کو غالب کرنے کا ارادہ فرما چکا تھا ، چنانچہ وہی ہوا جس کا اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمالیا تھا ۔
مسلمانوں نے ہجرت کا آغاز کیا اور اپنے آبائی وطن ، اپنے عزیز رشتہ داروں اور اپنے مال ومتاع کوچھوڑ کر سوئے مدینہ طیبہ روانہ ہوئے ۔مشرکین ِ مکہ نے ان کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور ان پر ظلم وتشدد کیا ۔لیکن ظلم وتشدد اور رکاوٹوں کے باوجود مسلمان یکے بعد دیگرے ہجرت کرتے رہے ۔ اور ابھی بیعتِ عقبہ کے بعد دو ماہ اور چند ایام کا عرصہ ہی گذرا تھا کہ مکہ مکرمہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا ، سوائے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور ان کے اہل وعیال اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے جو ابھی تک مکہ مکرمہ ہی میں موجود تھے ۔ اسی طرح وہ مسلمان جنہیں مشرکین نے زبردستی مکہ مکرمہ میں روک رکھا تھا وہ بھی ہجرت نہیں کرسکے تھے ۔[1]
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت کے لئے تیار تھے ، لیکن اس انتظار میں تھے کہ کب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت دی جاتی ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا :
’’ مجھے وہ شہر خواب میں دکھایا گیا ہے جس کی طرف تم نے ہجرت کرنی ہے ، اس میں کھجور کے درخت بہت زیادہ ہیں اور وہ سیاہ پتھروں والی دو زمینوں کے درمیان واقع ہے ۔ ‘‘
چنانچہ بہت سارے مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرلی، حتی کہ جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی وہ بھی واپس آگئے اور سوئے مدینہ منورہ چلے گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے بھی مدینہ منورہ کے لئے تیاری کرلی تھی لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کہا : ’’ابھی رُک جاؤ ، ہوسکتا ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت دے دی جائے ۔‘‘ تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کہا : میرا باپ آپ پر قربان ہو ، کیا آپ کو اس کی امید ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ ہاں ‘‘ تو ابوبکر رضی اﷲ عنہ رک گئے تاکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ انھوں نے دوسواریوں کو اس سفر کے لئے خوب تیار کر لیا ۔[2]
[1] زاد المعاد:52/2
[2] صحیح البخاری :2175،3692،5470