کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 127
انھیں تمہارے پاس آنے پر اصرار ہے ۔ لہٰذا اگر تم ان کی حفاظت کرسکتے ہو توٹھیک ہے اور تمہیں اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی ، لیکن اگر تم نے انھیں رسوا کرنا ہے تو انھیں آج ہی چھوڑ دو کیونکہ وہ اپنی قوم میں اب بھی محفوظ ہیں ۔‘‘
اس پر حضرت کعب رضی اﷲ عنہ نے انتہائی اعتماد کے ساتھ کہا :
’’ ہم نے آپ کی گفتگو سن لی ہے ، اب اے اﷲ کے رسول ! آپ خود ہی فیصلہ کرلیں۔ ‘‘
ان کے یہ الفاظ واضح طور پر بتا رہے تھے کہ اہلِ یثرب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں ، چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
بیعت کے الفاظ کے متعلق مسند احمد میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اے اﷲ کے رسول ! ہم کس چیز پر آپ کی بیعت کریں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ :
1۔چُستی اور سُستی دونوں حالتوں میں میری بات سنوگے اور اطاعت کروگے۔
2۔ خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں خرچ کروگے ۔
3۔نیکی کا حکم دوگے اور برائی سے روکو گے ۔
4۔ اﷲکے لئے اٹھ کھڑے ہوگے اور اس کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہ لاؤگے۔
5۔اور جب میں تمہارے پاس آجاؤں گا تو تم میری مدد کروگے اور میری اس طرح حفاظت کروگے جیسا کہ تم اپنی جانوں ، اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی حفاظت کرتے ہو۔ یاد رکھو ! اس کے بدلے میں تمہارے لئے جنت ہے ۔‘‘[1]
اس کے بعدتمام مسلمانوں نے ایک ایک کرکے بیعت کی۔ بیعت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے بارہ افراد کو نقیب مقرر کیا جو اس معاہدے کو عملی طور پر نافذ کرنے کے ذمہ دار تھے ۔
ہجرت کا آغاز
عقبہ کے مقام پر اہلِ یثرب کی دوسری بیعت کے بعد مسلمانوں کے لئے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا راستہ کھل گیا ، کیونکہ اہلِ یثرب دین اسلام کے لئے جان ومال قربان کردینے کا معاہدہ کرچکے تھے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مظلوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہر طرح سے مدد کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا چکے تھے۔ مکہ مکرمہ کے
[1] مسند احمد:339/3(14694)،صحیح ابن حبّان:745/15،الحاکم:681/2(4251)