کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 126
طیبہ روانہ کیا جو اسلام کے پہلے داعی بنے۔ انھوں نے مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بھر پور انداز سے اسلام کی دعوت کو پھیلایا جس کے نتیجہ میں لوگ کثرت سے اسلام قبول کرنے لگے ، حتی کہ مدینہ طیبہ کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں کسی ایک فرد نے بھی اسلام قبول نہ کیا ہو ۔ ان کی دعوت کا سب سے دلچسپ واقعہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ، حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور ان کے پورے قبیلہ (بنی عبد الأشھل ) کے قبولِ اسلام کا واقعہ ہے جو سیرت کی کتب میں موجود ہے ۔
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تقریبا سال بھر مدینہ منورہ میں رہے اور مسلسل لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ پھر ۱۳ نبوی کے موسم حج سے قبل آپ مکہ مکرمہ واپس لوٹ گئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ مدینہ کے اسلام قبول کرنے کی خوشخبری سنائی ۔
یاد رہے کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ وہ صحابی ٔ رسول ہیں جو جنگِ اُحد میں شہید ہوئے اور جب ان کی تکفین وتدفین کا وقت آیا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کابیان ہے کہ انھیں ان کے کفن کے لئے صرف ایک ہی چادر ملی جو اس قدر چھوٹی تھی کہ اس سے اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور اگر پاؤں ڈھانپے جاتے تو سر ننگا ہوجاتا ۔ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان کے سر کو ڈھانپ دو اور پاؤں پر اذخر (گھاس) کے پتے ڈال دو ۔ ‘‘[1]
عقبہ کے مقام پر اہلِ مدینہ کی دوسری بیعت
۱۳ نبوی کے موسمِ حج میں اہلِ یثرب میں سے ستر سے زیادہ مسلمان مناسک ِ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے ۔ ان کے ذہنوں میں ایک ہی بات گردش کررہی تھی کہ آخر کب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے پہاڑوں میں اذیت دی جاتی رہے گی ؟ چنانچہ ان کے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان خفیہ روابط کے بعد طے پایا کہ وہ ایامِ تشریق کے وسط میں عقبہ کے مقام پر آپ سے ملاقات کریں گے ۔ بنا بریں اہلِ یثرب کے ۷۳ مرد اور دو خواتین رات کی تاریکی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ سب سے پہلے انھوں نے گفتگو شروع کی اور کہا :
اے خزرج کی جماعت ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاجو مقام ہم میں ہے وہ تمہیں معلوم ہے ۔اور ہم نے ان کی جس طرح حفاظت کی ہے وہ بھی تم جانتے ہو۔ وہ اپنی قوم میں باعزت ہیں اور اپنے شہر میں بالکل محفوظ ہیں ۔ لیکن
[1] صحیح البخاری :1276، صحیح مسلم :940