کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 125
آخر کار رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہجرت کے تین واقعات پیش آئے : 1۔حبشہ کی طرف پہلی ہجرت : یہ نبوت کے پانچویں سال میں ہوئی ۔ ۱۲ مرد اور ۴ خواتین پیدل چل کر سمندر کے کنارے پہنچے ، وہاں سے ایک کشتی کرائے پر لی اور حبشہ وارد ہوئے جہاں انھیں معزز مہمانوں کی طرح رکھا گیا۔[1] 2۔حبشہ کی طرف دوسری ہجرت : پہلی مرتبہ ہجرت کرکے جو مسلمان حبشہ پہنچے تھے انھیں خبر ملی کہ اہلِ مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ چنانچہ ان میں سے کئی لوگ مکہ مکرمہ واپس آگئے لیکن یہاں آکر انھیں معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی ، اس لئے انھوں نے اور ان کے ساتھ کئی اور مسلمانوں نے حبشہ کی طرف دوبارہ ہجرت کی ۔ ان کی تعداد ۸۰ سے متجاوز تھی ۔[2] 3۔ہجرتِ مدینہ طیبہ ہجرتِ مدینہ طیبہ کے واقعات جس ترتیب سے پیش آئے وہ کچھ یوں ہیں ۔ عقبہ کے مقام پر اہلِ مدینہ کی پہلی بیعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ موسم حج کے دوران مکہ مکرمہ میںآئے ہوئے مختلف قبائل سے ملاقاتیں کرتے اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ۔ چنانچہ نبوت کے گیارہویں سال کے موسمِ حج میں اہلِ یثرب کے چھ افراد نے اسلام قبول کرلیا ۔ یہ حضرات جب یثرب (مدینہ منورہ ) کو واپس لوٹے تو انھوں نے وہاں لوگوں کو اسلام کا تعارف پیش کیا اورانھیں اس کے محاسن سے آگاہ کیا ۔ چنانچہ اگلے سال یعنی ۱۲نبوی میں مدینہ منورہ سے بارہ افراد مکہ مکرمہ آئے اور انھوں نے منی میں عقبہ کے مقام پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست ِ مبارک پر بیعت کی۔ اِس بیعت کا حال انہی بارہ افراد میں سے ایک حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم اس بات پر میری بیعت کرو کہ تم ( میرے مدینہ میں پہنچنے کے بعد ) میری ہر اس بات سے حفاظت کرو گے جس سے تم اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں کی حفاظت کرتے ہو ۔ ‘‘[3] اِس بیعت کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بارہ افراد کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بھی مدینہ
[1] فتح الباری :188/7 [2] فتح الباری :189/7 [3] فتح الباری :90/1