کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 124
عزیزان گرامی ! آپ نے ہجرت کے فضائل میں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کو سماعت فرمایا۔ ان سے یقینا آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہجرت کی کیا قدر و منزلت ہے اور اسلام میں اس کا کیا مقام ہے ! ہجرت قیامت تک باقی ہے ہجرت کا حکم فتح مکہ کے بعد ختم نہیں ہوا بلکہ یہ قیامت تک باقی اورجاری وساری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( لَا تَنْقَطِعُ الْہِجْرَۃُ حَتّٰی تَنْقَطِعَ التَّوْبَۃُ ، وَلاَ تَنْقَطِعُ التَّوْبَۃُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا)) [1] ’’ ہجرت منقطع نہیں ہوگی یہاں تک کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے ، اور توبہ کا دروازہ بند نہیں ہو گا یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے ۔‘‘ اور جہاں تک حدیث ( لاَ ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ ) ’’ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ‘‘ کا تعلق ہے تو اس سے مقصود یہ ہے کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعددار الإسلام میں شامل ہوگیا تو اس کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد ہجرت کی نفی کردی ۔تاہم اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ سرے سے ہجرت کا حکم ہی ختم کردیا گیا۔ جبکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی ایک اور توجیہ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہجرت کی جو فضیلت فتحِ مکہ سے پہلے تھی اور جس طرح مسلمانوں نے ظلم وستم برداشت کرنے کے بعد انتہائی خستہ حالی میں ہجرت کی ، وہ فضیلت مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعد ختم ہوگئی کیونکہ فتح مکہ کے بعد اسلام غالب ہوگیا اور مسلمان مضبوط اور طاقتور ہوگئے ۔ جبکہ فتحِ مکہ سے پہلے وہ مظلوم اور انتہائی کمزور تھے ۔ لہٰذا وہ خاص فضیلت والی ہجرت تو اس حدیث کے مطابق فتح مکہ کے بعدختم ہوگئی تاہم عمومی طور پر ہجرت کا حکم باقی ہے اور وہ قیامت تک جاری رہے گی۔[2] ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں اوائل ِ اسلام میں جن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا اہل ِ مکہ نے ان پر بہت ظلم وستم کیا اور انھیں مختلف قسم کی سزائیں اور ایذائیں دیں۔ ایسی سزائیں کہ جن کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ مسلمان کمزور تھے اور کفار طاقتور ، کمزور مسلمان اسلام کی خاطر سب کچھ برداشت کرتے رہے ،
[1] مسند أحمد:99/4، سنن أبي داؤد :2479،صحیح أبی داؤد للألبانی :2166 [2] شرح صحیح مسلم :8/13