کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 12
تقریظ از جناب حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ دین اسلام کی امتیازی خصوصیات میں اسے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جمعہ کے دن ظہر کی نماز کے بجائے خطبہ اور دوگانہ مقرر کیا گیا ہے۔یعنی چار رکعات فرض کے بجائے دو فرض رکھے گئے ہیں اور دو رکعت کی جگہ خطبہ رکھا گیا ہے۔ خطبہ ،خطاب سے ہے یعنی لوگوں سے خطاب کرکے ان کو اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام بتانا ۔گویا خطبۂ جمعہ کا مقصد وعظ وتذکیر،نصیحت اور یاد دہانی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ جمعہ کی بابت بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہی وضاحت فرمائی ہے :یُذَکِّرُ النَّاسَ۔ ’’آپ لوگوں کو وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے۔‘‘ اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں : 1۔ ایک یہ کہ خطبہ مختصر ہو کیونکہ یہ دو رکعت کے قائم مقام ہے ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے میں اختصار سے کام لینے والے خطیب کو ’’ فقیہ‘‘ قرار دیا ہے یعنی وہ دین کا صحیح سمجھ رکھنے والا اور صاحبِ حکمت وفراست ہے ۔ اور ایک عالم وخطیب کے لیے یہ وصف بنیادی اور نہایت ضروری ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو خطیب اپنے خطبۂ جمعہ میں اختصار کے بجائے طوالت کو اختیار کرتا ہے وہ فہمِ دین سے بھی عاری ہے اور دعوت وتبلیغ کے حکیمانہ اسلوب سے بھی نا آشنا ہے ۔ 2 ۔ دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ خطبہ ٔ جمعہ میں اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کے علاوہ کو ئی دوسری بات بیان نہیں کرنی چاہئے ،کیونکہ خطبے کا مقصد وعظ ونصیحت ،آخرت کی یاددہانی ،اخلاق وکردار کی اصلاح،تصفیۂ عقائد ،تجدید ِ ایمان اور تطہیر وتزکیۂ نفس ہے ۔ اور یہ سب باتیں صرف اور صرف قرآن وحدیث میں بیان کردہ احکام ومسائل اور ان کی صحیح صحیح توضیح وتفسیر ہی سے حاصل ہوتی ہیں نہ کہ من گھڑت قصص وواقعات اور بے سروپا روایات بیان کرنے یامن مانی تفسیر و وضاحت سے۔ بنابریں یہ ضروری ہے کہ ایک خطیب کو قرآن وحدیث پر عبور اور ان کے احکام ومسائل کا اسے استحضار ہو، اسی طرح اسے صحیح اور ضعیف احادیث کی پرکھ اور پہچان بھی ہو تاکہ وہ جو کچھ بیان کرے ، صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کرے او رضعیف و موضوع روایات سے اجتناب کرے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایسا علمی رسوخ رکھنے والے علماء اور خطباء بہت کم ہیں ۔زیادہ تر خطباء ایسے ہیں جو براہِ راست قرآن وحدیث سے اخذو استفادہ کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ،چنانچہ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ خطبات کے نام