کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 114
گواہ ہو جائیں ۔‘‘ { أُمَّۃً وَّسَطًا } کا معنی بیشتر مفسرین نے ’’عدولا خیارا ‘‘ کیا ہے یعنی بہترین ، سب سے افضل ، ثقہ اور قابل اعتماد امت ‘‘[1] اِس آیت کے سب سے پہلے مخاطب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہیں تبلیغ دین کی ذمہ داری سونپی گئی ۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ}[2] ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے ، تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جمِ غفیر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا : (( أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ)) [3] ’’ خبردار ! تم میں جو یہاں پر موجود ہے وہ غیر حاضر تک دین پہنچائے ۔‘‘ ان آیاتِ کریمہ اور اس حدیث ِ نبوی سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امین ، ثقہ اور قابلِ اعتماد ہیں ، تبھی تو انہیں تبلیغ دین جیسا اہم فریضہ سونپا گیا ، ورنہ اگر وہ امین اور ثقہ نہ ہوتے تو انہیں یہ ذمہ داری نہ سونپی جاتی۔ اس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے{أُمَّۃً وَّسَطًا} کے بعد{ لِتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاس}فرمایا ہے ، جس کا معنی یہ ہے کہ اﷲ کے ہاں ان کی گواہی قابل قبول ہے اور یہ بھی ان کے عدول، ثقہ اور قابل اعتماد ہونے کی دلیل ہے ، ورنہ ایسا نہ ہوتا تو ان کی گواہی بھی قابلِ قبول نہ ہوتی !! امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ الفتح کی آخری آیت{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه ، وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُم…الخ } کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’ تمام کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عدول ( ثقہ اور قابل اعتماد )ہیں ، اﷲ کے اولیاء اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں اور انبیاء ورسل علیہم السلام کے بعد اس کی مخلوق میں سب سے افضل ہیں ، یہی اہل سنت والجماعت کے ائمہ
[1] تفسیر جامع البیان:7/2،تفسیر القرطبی:153/2تفسیر ابن کثیر:335/1 [2] آل عمران4 :110 [3] صحیح البخاری: کتاب العلم باب ألا لیبلّغ الشاہد منکم الغائب:105،صحیح مسلم ،کتاب القسامۃ ، باب تحریم الدماء والأعراض والأموال:1679