کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 104
امت میں فتنے کھڑے ہوگئے ، بدعات ظاہر ہوگئیں اور امت انتشار کا شکار ہوگئی ۔[1]
2۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کونسے لوگ سب سے بہتر ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( قَرْنِیْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ [2]))
’’ میری صدی کے لوگ (سب سے بہتر ہیں) ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ۔ ‘‘
3۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لاَ تَسُبُّوْ أَصْحَابِیْ ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہُ[3]))
’’ میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مُدّ کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ آدھے مُدّ کے برابر۔ ‘‘
اِس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک صحابی نے اپنی تنگ دستی کے باوجود جو تھوڑا بہت اﷲ کی راہ میں خرچ کیا وہ اﷲ کے ہاں زیادہ پاکیزہ ہے اور زیادہ اجر وثواب کے لائق ہے بہ نسبت اس زرِ کثیر کے جو ان کے بعد آنے والے کسی شخص نے خرچ کیا ۔
4۔ حضرت ابوعبد الرحمن الجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک دو سوار رونما ہوئے ، وہ دونوںآئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک شخص نے بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگا کہ اے اﷲ کے رسول ! آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے آپ کو دیکھا ، آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی پیروی اور تصدیق کی ، اسے کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کے لئے طوبیٰ ہے ۔‘‘ ( جنت میں ایک درخت کا نام )
[1] شرح مسلم للنووی:83/16۔
[2] صحیح البخاری:کتاب الشہادات،باب لا یشہد علی شہادۃ جور إذا شہد: الرقم:2652،صحیح مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونہم 2533۔
[3] صحیح البخاری:2541 ،3673، صحیح مسلم:2540۔