کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 7
قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں ہمارے سب سے بڑے اور شدید دشمن ’’یہود ‘‘قرار پاتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ لوگ بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں!اﷲتعالیٰ نے عیسائیوں کو کسی قدر ہمدرد بتایا ہے۔ربّ العالمین سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے ؟لیکن جب ہم ان آیات کی روشنی میں تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ وہ نصاریٰ جن کے دلوں میں ہمارے لئے نرم گوشہ بتایا گیا ہے،ان سے گذشتہ چودہ سو سالوں میں مسلمانوں کے بے شمار معرکے اور محاذ آرائیاں ہوئی ہیں،خاص طور پر صلیبی جنگوں کا طویل سلسلہ تو تاریخ میں مشہورہی ہے۔،اسی طرح مشرکین اور کافروں سے بھی بہت سی جنگیں مسلمانوں نے لڑی ہیں،مگر ہمارے سب سے بڑے دشمن یعنی ’’یہودی ‘‘جو ہم سے شدید عداوت رکھتے ہیں،ان کے بارے میں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیبر ‘‘میں یہود کی جو گوشمالی فرمائی تھی اور پھر آخر میں حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے انہیں خیبر اور گردونواح سے نکال باہر کیا تھا اس کے بعد سے یہود کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی قابل ذکر محاذ آرائی یا معرکہ موجودہ صدی تک ہمیں نظر نہیں آتا،البتہ اس صدی میں ’’اسرائیل‘‘کے ناجائز قیام کے بعد سے یہود کی عربوں سے متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی ان سے جنگ وجدال کا ماحول جاری ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اﷲتعالیٰ کا قرآن مجید برحق ہے اور اسی طرح ہمیں یہ بھی یقین کامل ہے کہ کوئی ’’شدید دشمن‘‘چودہ سو سال کے طویل عرصہ تک خاموش اور چپ چاپ نہیں بیٹھ سکتا۔وہ تو اپنی فطرت کے مطابق لازمی طور پر حریف کو زک پہنچانے اور اس کو خاک میں ملانے کی کوشش ہمہ وقت کرتا رہے گا۔
آئیے اس بات پر غور کریں کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ’’قوم یہود ‘‘نے گذشتہ چودہ سو سالوں میں ہمیں کہاں کہاں اور کیسے کیسے زک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔