کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 33
قرآن مجید بھی اپنے پاس رکھنا وہاں جرم ہوگیا تھا،اوقاف کو ختم کیا،مساجد میں تالے ڈالے،پورے ملک میں اسلامی قوانین کو معطل کردیا،ایا صوفیہ کی مشہور مسجد کو میوزیم اور سلطان محمد فاتح کی مسجد کو ’’مخزن‘‘بنادیا ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ کو رواج دیا،زبردستی انگریزی لباس جاری کیا نصاب تعلیم سے عربی وفارسی زبانوں کو بالکل نکال دیا،عربی کی کتابوں اور مخطوطات کو معمولی قیمت پر فروخت کردیا۔یورپ کی ’’سیکولر تعلیم ‘‘کو پورے ترکی میں رائج کیا اور یہ تعلیم ٹیکنالوجی کے میدان میں اختیار نہیں جس سے مسلمان سائنسی میدان میں ترقی کرسکتے،بلکہ محض لسانی،ادبی اور دینی میدان میں یورپ کی تعلیم کو فروغ دیا۔ اسی طرح یہود کی کوشش او رریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ترکی کو زوال ہوا اور پھر اس کے بعد سے ترکی آج تک نہ سنبھل سکا،ترکی کے بعد پورا عالم اسلام یکے بعد دیگرے زوال کا شکار ہوتا چلا گیا،اتحاد اور وحدت اسلامی کے رشتے کمزور پڑتے گئے اس زوال اور ادبار سے عرب بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ انقلاب فرانس،جس کے اصولوں کے پس پردہ یہودی ذہن کا رفرما تھا،اس کے پروردہ نپولین بونا پارٹ نے ۱۷۸۹؁ء میں مصر پر چڑھائی کی،ازہر یونیورسٹی کو گھوڑوں کا اصطبل بنادیا،قاہرہ سے اسکندریہ تک راستہ میں جو بستیاں اور شہر تھے،انہیں تباہ کردیا،فرانسیسی استعمار نے اپنے قدم مصر کی سرزمین پر جمالینے کے بعد وہاں شراب،جوا،فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی کو رواج دینے کے لیے اپنے تمام وسائل جھونک دئیے تھے۔مصر وشام میں عرب وغیر عرب مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے انہوں نے ’’مائیکل افلق ‘‘اور’’ لارنس ‘‘جیسے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور انہوں نے عربی عوام میں عربی تفاخر اور ’’عرب قومیت‘‘کے نظریہ کو رواج دیا اور ان کی کوششوں سے عربوں کے قومی جذبات وعصبیت ابھر کر رفتہ رفتہ اس سطح پر پہنچ گئی کہ وہ ’’ابوجہل‘‘اور’’ابولہب ‘‘جیسے دشمنان اسلام کو اپنا ’’قومی ہیرو‘‘تصور کرنے لگے اور مصر میں ان کے نام سے کلب قائم کیے جانے گلے۔یہ صورت حال مصر اور پورے عالم عرب کے لئے قومی عصبیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی طرف پیش قدمی کرنے اور انقلاب فرانس کے ’’اصول ثلاثہ‘‘پر آنکھ بند کرکے ایمان لانے میں بڑی معاون ثابت ہوئی۔ عربوں کو خلافت عثمانی ترکی سے برگشتہ کرنے کے لیے یہودی النسل لارنس نے ان کے اندر عرب قومیت کا جنون پیدا کرکے انہیں ’’ملت اسلامیہ‘‘سے ذہنی طور پر علیحدہ کرنے اور مغربی افکار ونظریات کادلدادہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس کے پیرو کار ساطع حضرمی جیسے شخص نے جس کی عجمیت کا حال یہ تھا کہ وہ فصیح عربی بولنے پر بھی قادر نہ